نواز شریف ، اسحق ڈار، حسن ، حسین، سلمان شہباز،نصرت شہباز اور خاندان کے دیگر افراد کے پاکستان نہ آنے کے سوال پہ دہرا دہرا کے ایک ہی دلیل دی جاتی ہے کہ ہمیں اس نظام انصاف پر اعتماد نہیں کیونکہ انصاف کے اداروں پر حکومت کا شدید ترین دبائو ہے یا انصاف کے ادارے حکومتی گٹھ جوڑ کے باعث انصاف فراہم نہیں کر رہے ۔ حقائق کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا عدالتیں واقعی شریف خاندان کو انصاف فراہم نہیں کر رہیں ۔ چند حقائق پیش خدمت ہیں۔ حمزہ اور شہباز شریف پر نیب کی جانب سے منی لانڈرنگ کے سخت ترین ریفرنس ہونے کے باوجود دونوں ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے نیب کے ججز سمیت کئی دوسرے ججز کو ٹرانسفر کر دیا جس سے شہباز شریف اور ان کے خاندان کا نیب عدالت میں ہونے والا ٹرائل عملاََ معطل ہو گیا۔ اس کا فائدہ اٹھا کر شہباز اور حمزہ دونوں نے ضمانتیں حاصل کر لیں ،ہائیکورٹ میں دلیل دی کہ ٹرائل نہیں ہو رہا اس لیے ضمانت دے دی جائے اور انہیں ضمانت دے دی گئی۔ آج سے چار مہینے پہلے جب نیب ٹرائل ہو رہا تھا ، احتساب عدالت کے جج جواد الحسن کے سامنے شہباز شریف ہر پیشی پر ’’پریس کانفرنس ‘‘کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے اور بیس منٹ تک غیر متعلقہ موضوعات پر بولتے چلے جاتے ، اپنی مرضی کی تاریخ حاصل کرتے اور چلے جاتے۔ ان کے وکیل امجد پرویز ایک ایک گواہ پر تین تین ہفتے تک جرح کرتے ۔ بعض اوقات یہ بحث غیر متعلقہ اور وقت گزاری کا حربہ معلوم ہوتی لیکن پھر بھی جج صاحب ایسا کرنے کی اجازت دیتے ۔ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کے دوران بھی لاہور کی سیشن کورٹ نے شہباز شریف اور حمزہ کو عبوری ضمانت دے رکھی ہے اور خواہش کے مطابق انہیں تاریخیں بھی مل رہی ہیں۔ گذشتہ تاریخ پر تو جج صاحب نے شہباز شریف سے کہا ’’میاں صاحب آپ کو آنے کی کیا ضرورت تھی ، آپ کو اسلام آباد جاناتھا تو آپ حاضری معافی کی درخواست بھجوا دیتے ‘‘۔ اب ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نظام انصاف پر عدم اعتماد کی وجہ کیا ہے اور کیا اب بھی شریف خاندان کو یہ شکوہ ہے کہ انہیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا؟ عید الفطر سے چند دن پہلے جب شہباز شریف نے لندن کا ٹکٹ بک کرایا اور اس کے بعد عدالت سے باہر جانے کی اجازت مانگی تو ایک ہی دن میں سماعت کر کے جسٹس علی باقر نجفی نے تمام فریقین کو سنے بغیر ہی باہر جانے کی اجازت دے دی۔وہ الگ بات کہ ان کا نام ECL میں آ جانے کے بعد حکومت نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کیالیکن کیا شہباز شریف یہ کہہ سکتے ہیں کہ عدالتوں پر انہیں اعتماد نہیں ؟ اسی عدالت نے طبیعت کی خرابی کے باعث نواز شریف کو نہ صرف باہر جانے کی اجازت دی بلکہ شورٹی بانڈ کی شرط بھی ختم کر دی۔ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ نے سزا یافتہ مجرم نواز شریف کو چھ ہفتے کی چھٹی دے کر علاج کرانے کی اجازت دی جس کی مثال عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی۔ کیا نواز شریف کو اب بھی شکوہ ہے ؟ دوسری جانب آپ مریم نواز کو دیکھیں۔ ایک کیس میں ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا تو ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرنے لاہور ہائیکورٹ جا پہنچیں۔ پراسکیوٹر نے کہا ان کے تو وارنٹ ہی جاری نہیں ہوئے ، ضمانت کیسی؟ لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے حکم دیا ان کے وارنٹ جاری کرنے سے دس دن پہلے انہیں بتایا جائے تاکہ یہ بروقت ضمانت حاصل کر کے گرفتاری سے بچ سکیں۔ اس کے باوجود مریم نواز کا یہ کہنا درست معلوم نہیں ہوتا کہ اس نظام سے انہیں انصاف کی توقع نہیں۔ شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز منی لانڈرنگ کیس میں نامزد ملزم ہیں۔ بیرون ملک مقیم ہونے اور عدالت کے باربار بلانے پر بھی پیش نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ ان کے وکیل لاہور ہائیکورٹ کے پاس گئے اور کہا کہ نصرت شہباز کا اشتہاری کا اسٹیٹس ختم کرکے انہیں اپنے نمائندے کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دی جائے ۔ لاہور ہائیکورٹ نے نصرت شہباز کو اشتہاریوں کی فہرست سے نکالنے کا حکم جاری کیا اور امجد پرویز کے معاون وکیل نواز ایڈووکیٹ نیب عدالت میں نصرت شہباز کے معاون مقرر ہو گئے۔ ایسی سہولت شاید ہی کسی کو میسر آئی ہو۔ اب آپ انسداد منشیات کی عدالت میں چلنے والا رانا ثنا ء اللہ کا کیس دیکھیں۔ دو سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ۔ ان کی کوشش تھی کہ ان پہ فرد جرم عائد نہ ہو اور اس میں کامیاب رہے ۔ ہر تاریخ پہ رانا ثنا ء اللہ کے وکلا ڈیڑھ دو مہینے کی تاریخ مانگتے ہیں اور اکثر اوقات انہیں لمبی تاریخ مل جاتی ہے ۔ عدالتوں سے اور کیسا ریلیف چاہیے رانا ثناء اللہ اور ان کے ساتھیوں کو ؟اب ظاہر ہے مقدمہ بنا ہے کیس تو چلے گا ۔ آپ عدالتوں سے کیا توقع کرتے ہیں کہ وہ پہلی ہی تاریخ پہ بری کر دیں ؟ ان تمام دلائل کی روشنی میں یہ پراپیگنڈا درست معلوم نہیں ہوتا کہ ن لیگ کو ان عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں باہر بیٹھے افراد ملک واپس نہیں آ سکتے ۔ پاکستان کی عدالتوں سے شریف خاندان کے علاوہ رانا ثناء اللہ ، شاہد خاقان عباسی ، احسن اقبال ، جاوید لطیف، سعد رفیق اور ن لیگ کے دیگر کئی افراد کو ریلف مل چکا ہے ۔ کیا اس کے باوجود ن لیگ اور شریف خاندان کا یہ کہنا درست ہے کہ انہیں ان عدالتوں پر اعتماد نہیںاورکیا اس دلیل کو ملک واپس نہ آنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے؟