نہ کوئی اشک ہے باقی نہ ستارا کوئی اے مرے یار مرے دل کوسہارا کوئی چاند نکلا نہ سربام دیا ہے روشن شب گزرنے کا وسیلہ نہ اشارہ کوئی تو صاحبو!صورت حال تو یہی ہے ریشم کے دھاگے کی الجھنیں سلجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے سرا ہی نہیں مل رہا تو کس تار کو کون سے تار سے جدا کیا جائے۔ پہلے صرف نعرہ ہی تھا کہ آئو ملک بچائو اب تو باقاعدہ اس کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں کہ واقعتاً اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔آپ سوچتے ہونگے کہ مجھے اس کا خیال آخر کیوں آیا؟ویسے تو موجودہ پالیسیاں اور امپورڈ مشیران ہی دلیل کے لئے کافی مگر میرے پیش نظر ایک خبر ہے جس میں سابق اولمپیئن کھلاڑیوں نے ہاکی بچائو تحریک شروع کی ہے۔ واقعتاً یہ بہت تشویش ناک بات ہے ہم تو تعلیم کا سوچتے تھے کہ حکمران صرف علم دشمن ہیں۔ مصحفی یاد آ گئے: مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم تیرے دل میں تو بہت کام رفوکا نکلا شاید اب کام رفو سے بہت آگے نکل چکا ہے پرانے کھلاڑیوں نے بہت بھلا وقت دیکھا ہوا ہے جب ہم ہاکی کے چمپیئن تھے وکٹری سٹینڈ پر ہوتے تھے۔ پوری قوم ہاکی میچ دیکھنے کے لئے سکرین پر نظر جما لیتی ہے وہ فلائنگ ہارس کلیم اللہ کیسے بھول سکتے ہیں کیا سنہرا دور تھا وہ حسن سردار شربتی آنکھوں والے ایسے لچکیلے کھلاڑی ایک مرتبہ داتا دربار آئے تو ایک ہجوم نے انہیں گھیر لیا۔ میں یونیورسٹی میں تھا جی میں آیا کہ میں بھی ان پر پھول پھینکوں میں نے ان کے ویل کم کی انگریزی میں فرنٹیئر پوسٹ کے لئے نظم لکھی۔ یہ سب ہمارے ہیرو تھے شہباز تو سب کو گھما کے رکھ دیتے تھے۔ ہائے ہائے یادیں آتی ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے سینئر کھلاڑی صحیح خون کے آنسو رو رہے ہیں وہ درست کہہ رہے ہیں اس شعبے سے کرپشن ختم کی جائے۔ بڑی بڑی تنخواہوں پر نان پروفیشنلز رکھے ہوئے ہیں سیاست چلتی ہے۔ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے کیا ہم ہر قومی چیز سے ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ مثال اردو کی ہمارے سامنے ہے کہ ہم نے آئین کی خلاف ورزی کی، قائد اعظم کے فرمان کو پس پشت ڈال دیا اور چند بیورو کریٹ اور مغرب زدہ لوگوں نے پوری قوم کی شناخت اور پہچان اس کو دینے سے انکار کر دیا اور سازشیں کیں۔ اگر یہ قومی زبان سرکاری اور رابطے کی زبان بن جائے اور تعلیم کی بنیاد ہو تو اسی فیصد ہمارا ٹیلنٹ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ انگریزی ضرور پڑھیں مگر اردو کو اپنی پہچان بنائیں۔ خیر بات کسی اور طرف نکل گئی احسان دانش کا ایک شعر ذرا تصرف کے ساتھ کھو رہا ہوں کہ انہوں نے پوری قوم ہی کو مجرم قرار دیا: جو کام بھی اس قوم کو سونپا گیا یارو اس قوم نے اس کام کی جڑ مار کے رکھ دی کہنے کا مقصد یہ کہ ہم من حیث القوم بھی اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتے۔اس لئے تو تبدیلی نہیں آ رہی۔ تبدیلی صرف اوپر کی سطح پر آئی ہے کہ چور‘ ڈاکو اور لٹیرے تبدیل ہو جاتے ہیں ہم نہیں بولتے بس اپنا کام نکالنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ رشوت دے کر آگے نکل جاتے حتیٰ کہ ظلم دیکھ کر چشم پوشی کرتے یں وہی جو عنایت صاحب نے کہا تھا: حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر ہر شخص کہتا ہے کہ بس اپنے آپ کو بچائو کہ پولیس کی شہرت ہی ایسی ہے کہ ہمدردی کر کے لاش اٹھانے والے کو ہی دھر لے گی۔ یہ سچ ہے کہ کوئی مجرم تھانے جاتے ہوئے کبھی نہیں گھبراتا۔ہمارے شہری آپس میں نہیں جڑتے۔ کاش وہ یہ بات جماعت اسلامی سے ہی سیکھ لیں کہ وہ آپس میں مشاورت کر کے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ہم پڑوسیوں سے بھی سلام لینے کے روادار نہیں۔ میں اپنے حساب سے درست لکھ رہا ہوں۔ یہاں صرف ہاکی کو بچانے کی بات نہیں بلکہ عزت بچائو والا معاملہ ہے کسی کا پلاٹ تک محفوظ نہیں۔ جب کوئی چاہے قبضہ کر لے پورے نظام پر ہی قبضہ ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ بنائو اور وہ بنائو ،ہو یہ رہا ہے کہ یہ بچائو اور وہ بچائو۔ مثلاً آج ہی لاہور کے مسائل کے حوالے سے وزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ پتہ نہیں یہ کمیٹیاں بن جاتی ہیں تو سارا کام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ عملی طور پر لاہوریے بٹ بٹ دیکھ رہے کہ سارے منصوبے رکے پڑے ہیں روز اورنج ٹرین کے جہازی ٹریک کو دیکھ کر آہیں بھرتے ہیں کہ اربوں روپے بیکار ہو گئے کیا تماشا ہے کہ دو ماہ بعد ایک ٹرین اوپر سے گزار کر لوگوں کو تسلی دے دی جاتی ہے آپ بڑی سطح کو چھوڑیں ۔ میں آپ کو اسی فٹ روڈ پر لے چلتا ہوں۔جو سبزہ زار سے مرغزار تک جاتی ہے انتہائی مصروف سڑک ہے بارشوں نے اسے برباد کر دیا حرام کسی محکمہ نے آ کر اس تباہی کو دیکھا ہو۔ تھک ہار کر مرغزار کے ندیم خاں ناصر قریشی اور دوسرے لوگوں نے مرغزار کالونی کے باکمال کارکن نما صدر شہزاد چیمہ سے درخواست کی کہ آپ ہی داد رسی کریں یہ کام حکومت کے کسی محکمے کا ہے مگر محکمے کہاں ہیں؟اندھیر نگری ہے۔ خدا کے لئے اس ملک پر رحم کھائیں آپ نے لاہور کو کیا بنانا ہے آپ لاہوریوں کو بنا رہے ہیں اور شہباز شریف کے انتظار میں ہیں۔ روشنیوں کا شہر کراچی بھی اجڑ گیا ہے۔ اسے تو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لوٹا گیا اور اب بھی اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ ہاکی بچائی جائے تو درست ۔ یہاں تو سب یہی پکار رہے ہیں کیا سرکاری ملازمین اور کیا دوسرے لوگ سب کچھ دائو پر لگا دیا گیا ہے۔کل مریم اورنگزیب نے اپنی دھواں دار تقریر میں غدار کا لفظ تک کہہ دیا تو باقی کیا رہ گیا ۔جو بھی اس ارض پاک سے غداری کرے گا وہ اس قوم کا سب سے بڑا مجرم ہوگا بس یونہی ایک غزل کے دو شعر یاد آ گئے وہ غزل پندرہ سال قبل انصاری عباسی نے اپنے کالم میں لکھی تھی: یہ جو پرشکستہ ہے فاختہ، یہ جو زخم زخم گلاب ہے یہ ہے داستان مرے عہد کی جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے جہاں حکمرانی ہو لوٹ کی جہاں ترجمانی ہو جھوٹ کی