خلافتِ عثمانیہ کی تباہی اور مسلمانوں کی مرکزیت کے خاتمے کے تقریباً ایک سو سال بعد آج یہ میدان ایک بار پھر سج چکا ہے، لیکن آج ان تاش کے بکھرے ہوئے پتوں کی طرح مسلمان ممالک کا وجود بھی انہیں گوارا نہیں۔ گذشتہ دہائی سے مصر کے نیل سے لے کر عراق کے فرات تک کی سرزمین، آگ و خون میں غلطاں اور بارود کی بو میں لپٹی ہوئی ہے اور یہ منظر دن بدن خوفناک سے خوفناک ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہی دو دریا ہیں جو علامت کے طور پر اسرائیلی پرچم پر دو نیلی لائینوں کے طور پر دکھائے گئے ہیں جن کے درمیان چھ کونوں والا ستارۂ داؤدی (Star of David) ہے۔ پورا پرچم آنے والے اس وقت کے خواب سے معمور ہے، جب دریائے نیل اور دریائے فرات کے درمیانی علاقے پر یہودیوں کی عالمی حکومت قائم ہو گی جس کا مرکز ’’یروشلم‘‘ کا مقدس شہر ہو گا، جہاں ان کا ’’مسیحا‘‘ دیوارگریہ پر ازسرنو تعمیر ہونے والے ہیکل سلیمانی، میں تخت داؤدی پر بیٹھ کر پوری دنیا پر فرمانروائی کرے گا۔ برطانوی شاہی خاندان آج بھی اپنے آپ کو حضرت داؤد ؑ کا وارث تصور کرتا ہے اور ہر نئے بادشاہ یا ملکہ کی ویسٹ منسٹر ایبے میں رکھے ہوئے تخت داؤدی پر بٹھا کر تاج پہنایا جاتا ہے۔ اس تختِ داؤدی کے نیچے ایک پتھر کی سل ہے جس کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا ہے کہ اس پر حضرت یعقوب علیہ السلام بیت اللحم میں آرام کیا کرتے تھے۔ پرانی روایات کے مطابق، برطانیہ کی ریاست دراصل متحدہ سلطنتِ اسرائیل و یہوداہ (United Kingdom Of Israel And Judah) کہلاتی تھی۔ برطانیہ میں موجود تختِ داؤدی پر 2جون 1953ء کو ملکہ ایلزبتھ کو تاج پہنایا گیا اور وہ ابھی تک سریر آرائے سلطنت ہے۔ ملکہ ایلزبتھ سے پہلے اس تخت پر بیٹھنے والے تمام تخت نشینوں نے تاریخ میں یہودیوں سے اپنی محبت اور تختِ داؤدی سے معنوی وفاداری کا مکمل ثبوت دیا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کو تقسیم کرنے اور یہودیوں کو ’’ارضِ مقدسہ‘‘ میں واپس آباد کرنے کے لئیے، جو مربوط منصوبہ سازی کی گئی وہ سب کی سب تاجِ برطانیہ ہی کے زیرسایہ برطانوی خفیہ ایجنسی، ’’MI 6‘‘کے ذریعے ہوئی۔ لارنس آف عریبیہ کو 1914ء میں حجاز بھیجا گیا تاکہ عربوں کے دلوں میں قومیت کا بیج بو کر انہیں ترکوں کے خلاف ابھارے۔ اس کی کوششوںنے عربوں کو خلافتِ عثمانیہ کے خلاف کھڑاکر کے مسلمانوں کی اس اجتماعی مرکزیت یعنی خلافت عثمانیہ کو جنگِ عظیم اوّل میں گھسیٹا گیا۔ بلقان کی جنگوں سے نڈھال خلافتِ عثمانیہ جب 29 اکتوبر 1914ء کو جنگِ عظیم اوّل کا فریق بنی تو آنے والے سالوں نے برطانیہ کا ہدف واضح کر دیا۔ جنگ کے بعد اس میں شریک دنیا کے تمام ممالک ویسے کے ویسے رہے، لیکن خلافتِ عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس سے نسلی اور علاقائی قومیت کی بنیاد پر کئی ایک مسلمان ملک تخلیق کئے گئے۔ مگر اس تصور قومیت کے بالکل برعکس 1916ء کے بالفورڈیکلریشن کے مطابق یہودیوں کو مذہب کی بنیاد پر ملک بنانے کے لئے اس خلافتِ عثمانیہ میں سے ہی اسرائیل کا علاقہ فراہم کیا گیا۔ اس سازش اور توڑپھوڑ کے زمانے میں برطانیہ پر جارج پنجم کی حکومت تھی، جو 6مئی1910ء لے کر 20جنوری 1936ء تک چھبیس سال برسراقتدار رہا۔ اسی دور میں برصغیر پاک و ہند بھی تاجِ برطانیہ کا حصہ تھا۔ جنگ جیتنے اور امتِ مسلمہ کو شکست سے دوچار کرنے میں اس خطے نے بھرپور کردار ادا کیا۔ لیکن سب سے نمایاں کردار ان علاقوں کا ہے جو آج پنجاب اور خیبرپختونخواہ کہلاتے ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران پورے ہندوستان سے پندرہ لاکھ افراد فوج میں بھرتی ہو کر گئے۔ ان پندرہ لاکھ افراد میں سے چھ لاکھ تراسی ہزار ایک سو انچاس (6,83,149)لوگ ان علاقوں سے تھے جو اس وقت پاکستان کہلاتے ہیں اور ان میں نوے فیصد سے بھی زیادہ موجودہ پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ پورے ہندوستان سے سنتالیس کروڑ نوے لاکھ پونڈ جنگی ٹیکس اور چندہ اکٹھا کیا گیا۔ چونکہ پورے ہندوستان کو خوراک فراہم کرنے والا خطہ صرف پنجاب ہی تھا، اس لئیے یہاں سے نوکروڑ انیس لاکھ اٹھارہ ہزار چھ سو چونسٹھ روپے (9,21,18,664) وصول کئے گئے۔ جنگ شروع ہوئی تو ہندوستان سے 69رجمیٹیں فوراً روانہ کی گئیں جن میں سے 41پنجاب کے فوجیوں پر مشتمل تھیں۔ جون 1915ء تک ہندوستان سے اسی ہزار فوجی جنگ کے لئیے یورپ بھیجے جا چکے تھے۔ لیکن یورپ کی سردی اور علاقے سے ناواقفیت ہونے کی وجہ سے انہیں ذلت آمیز شکست ہوئی۔ لاہور ڈویژن میں سے فیروزپور اور جالندھر کی بریگیڈ کا چند ہفتوں میں صفایا ہو گیا۔ جرمن افواج نے زہریلی گیس استعمال کی جس نے باقیوں کو بھی اذیت ناک موت سے دوچار کر دیا۔ اس کے بعد ہندوستانی فوجیوں کے لئے ان کے حسبِ حال موسم اور علاقے کا انتخاب کرکے، انہیں خلافتِ عثمانیہ کے مسلمان سپاہیوں سے لڑانے کے لئے روانہ کیا گیا۔ اپریل 1915ء سے جنوری 1916ء تک یہ ہندوستانی فوجی، عثمانی ترکوں سے ترکی کے جزیرے گیلی پولی میں لڑے، لیکن ان ہندوستانی خصوصاً پنجابی فوجیوں نے ایسی ذلت آمیز شکست کھائی کہ برطانوی وزیراعظم ایسکوتھ اور چرچل دونوں کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ترک افواج سے لڑنے کے لئیے عراق میں بھی جو چھ لاکھ دستے بھیجے گئے ان میں بھی اکثریت ہندوستانی سپاہیوں کی تھی۔ یہ لڑائی قوۃ الامارہ ’’بصرہ‘‘ کے مقام پر ہوئی۔ عثمانیوں نے ان انگریز کے وفادار ہندوستانی فوجیوں میں سے ڈیڑھ لاکھ کو ٹھکانے لگا دیا۔ اللہ نے انگریز کے ان ’’بہادر وفاداروں‘‘ پر ہیضہ، ملیریا اور جوؤوں سے پھیلنے والے ٹائفس کو ایسا مسلط کیا کہ موت ان کی راہ دیکھنے لگی۔ بچ جانے والوں کو جنگی قیدی بنادیا گیا جنہیں شام اور موصل میں بیگار پر لگا دیا گیا۔اس شکست کے بعد برطانیہ نے حجاز کے ہاشمی خانوادے کے چشم و چراغ علی بن حسین المعروف شریفِ مکہ کو ساتھ ملایا اور قومیت کے نام پر عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھار کر جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اس گھمسان کی جنگ کے لئے ہندوستان خصوصاً پنجاب سے نئی بھرتیوں کا آغاز کیا گیا۔ عمر حیات ٹوانہ فرانس جانے والے پہلے دستے میں موجود تھا اسے قوۃ الامارہ یعنی بصرہ کے علاقے کی ذلت آمیز شکست کے بعد مسلمان فوجیوں کو مطمئن کرنے کے لئے عراق بھیجا گیا۔ معلوم نہیں اس نے ان پر کیا جادو کیا، کہ وہ اپنے ہی کلمہ گومسلمانوں سے لڑنے کے لئے ایک بار پھر تازہ دم ہو گئے۔ عمر حیات ٹوانہ کو اعزازی میجر کا عہدہ عطا ہوا اور اسے بھرتی آفیسر بنا کر واپس ہندوستان بھیجا گیا اور ساتھ ہی ایک حکم نامہ بھی دلّی سرکار سے جاری ہوا کہ پنجاب سے تین ہزار گدھوں اور اتنے ہی اونٹ چرانے والوں کی ضرورت ہے۔ یہ کام ملک خدا بخش ٹوانہ، خان صاحب محمد ظفر خان، شیخ نجم الدین اور لالہ رام چند کے ذمہ لگا۔ یہ لوگ بلا کے تھے۔ انہوں نے ایک ہفتے کے اندر اندر ساڑھے آٹھ ہزار بندے بمعہ گدھے اور اونٹ انگریز سرکار کو فراہم کر دئیے۔ انگریز سے وفاداری میں صرف جاگیردار ہی نہیں بلکہ بعض گدی نشین بھی شامل ہو گئے۔ ان گدی نشینوں اور جاگیرداروں کے بھرتی کئے گئے فوجیوں میں سے اکثر وہ تھے جو بیت المقدس کو فتح کرنے کیلئے جنرل ایلن بی کے ساتھ لڑے تھے۔یہی مسلمان تھے جو عراق، حجاز اور فلسطین میں تاجِ برطانیہ کی فتح کے لئے لڑے تھے۔ اس جنگ میں ان کا کمانڈر جنرل ایلن بی، اپنی فتح کے نشے میں چور جب صلاح الدین ایوبی کی قبر پر پہنچا اور اس نے قبر کو ٹھڈا مارتے ہوئے کہا ’’اٹھو صلاح الدین ہم آ گئے ہیں‘‘، تو یہ انگریز کے وفادار مسلمان دستے وہاں کھڑے چپ چاپ دیکھ رہے تھے۔ آج ٹھیک سو سال بعد ویسا ہی میدانِ جنگ سج چکا ہے۔ لیکن امتِ مسلمہ کی خاموشی بتا رہی ہے کہ اسرائیل اپنے جھنڈے پر علاقائی دریائے نیل و فرات کے درمیانی علاقے پر اپنی عالمی سلطنت بہت آسانی سے قائم کر لے گا اور ہمیں شاید اپنے سو سالہ پرانے غداری کے داغ دھونے کا موقع بھی نہ مل سکے۔