اس مہینے کی پانچ تاریخ کو ایک منفرد واقعہ ہوا۔ رومن کیتھولک مذہب کے پیشوا پوپ فرانسیس نے ابوظہبی کا دورہ کیا اور ایک عالمی مذہبی امن کانفرنس سے خطاب کیا جس میں 22مذاہب اور مذہبی فرقوں کے رہنما شریک تھے۔ جناب فرانسس پہلے پوپ ہیں جو عربستان آئے۔ ان سے آٹھ سو سال پہلے کے پوپ نے بھی ایک عرب ملک کا دورہ کیا تھا لیکن وہ مصر تھا‘ جو عرب ملک تو ہے پر افریقہ میں ہے‘ عربستان میں نہیں۔ اتفاق دیکھیے ان پوپ صاحب کا نام بھی فرانسس تھا۔پوپ نے فرمایا‘ دنیا کو امن کی ضرورت ہے۔ ساری دنیا انسانی گھرانہ ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ جنگ کو ہر معنے میں مسترد کر دے اور پرامن مستقبل کی تعمیر کرے۔ دوسرے مقررین نے بھی ایسی ہی اچھی باتیں کیں۔ یہ باتیں بہت اچھی سہی لیکن اس حقیقت کا کیا کیجیے کہ مدتیں گزریں‘ جنگ یا امن کا فیصلہ کرنے کا اختیار مذہبی رہنمائوںکے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ یہ فیصلے اب حکمران کرتے ہیں اور وہ بالعموم سیاستدان ہوتے ہیں یا کبھی جرنیل بھی۔ جنگ باز روحانی ہستیاں آج کل ایران کے سوا کہیں حکمرانی کی مسند پر فائز نہیں۔ ایک زمانہ وہ تھا جب پوپ‘ پادری اور ہٹلر صلیبی جنگوں کے لئے یورپ بھر سے لشکر اکٹھے کرتے اور انہیں عرب ملکوں پر چڑھا لاتے تھے۔ آج کل صلیبی جنگ نہیں ہوتی‘ دہشت گردی کے خلاف لڑائی ہوتی ہے اور فیصلہ کرنے والے بش اور ٹونی بلیئر جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ مذہبی رہنما صرف مبلغ کر سکتے ہیں اور یہاں مسئلہ یہ ہے کہ تبلیغ موثر ہو تب بھی موثر نہیں ہوتی اس لئے کہ اثر عوام قبول کرتے ہیں۔ حکمران نہیں اور فیصلے حکمران کرتے ہیں عوام نہیں۔ ٭٭٭٭٭ کچھ عرصہ سے کیتھولک مذہب کا چرچ مسلمانوں کے قریب آ رہا ہے۔ پچھلے پوپ بھی مسلمانوں کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات ظاہر کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں کیتھولک چرچ اسلام کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ روم کی پاپل تاریخ جنگ اور خونریزی کی تاریخ ہے۔ چنگیزی کے جملہ حقوق سیاستدانوں نے حاصل کر لئے اور اس میں بھی کروڑوں مارے گئے۔ کچھ عشروں سے پوپ اور اس کے ادارے کے خیالات میں تبدیلی آئی ہے۔ وحدت ادیان کی سوچ تو ممکن نہیں لیکن بنی نوع آدم کے ایک برادری ہونے کے خیال کو ترقی ملی ہے۔ کیتھولک مذہب کے خلاف چھ صدی پہلے بغاوت ہوئی اور پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا جو خالص مذہب اور بدعات کی اصلاح کرنے کے دعوے لے کر اٹھا تھا۔ لیکن بعد میں اس نے فرقے سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں نے عالمی خونریزی میں ان کو مات دے دی جن کے خلاف بغاوت کی تھی۔ ٭٭٭٭٭ پروٹسٹنٹ فرقے کا ذکر آیا تو ایک بات یاد آئی۔ اگر برطانیہ کیتھولک ازم ترک کر کے پروٹسٹنٹ مذہب اختیار نہ کرتا تو یہ مذہب اتنی ترقی نہ کرتا۔یہیں کے لوگ امریکہ آباد ہوئے اور کینیڈا بھی اور ان طاقتوں کے سیاسی عروج سے یہ دنیا کا تیسرا بڑا مذہبی فرقہ بن گیا ہے۔ ان کے رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں ان کے ہم مذہبوں کی تعداد 90کروڑ کے لگ بھگ ہے لیکن اس دعوے کچھ مبالغہ ہے۔ محتاط اندازہ80کروڑ کا ہے۔ کیتھولک مذہب کے ماننے والوں کی مصدقہ تعداد البتہ ایک ارب 25کروڑ سے زیادہ ہے۔پروٹسٹنٹ مذہب کے اکثریتی ممالک یورپ میں محض برطانیہ اور سکینڈے نیویا کے ملک ہیں۔ جرمنی میں وہ کیتھولک سے کچھ ہی کم ہیں۔ افریقہ میں نائجیریا اور جنوبی افریقہ کے مسیحی پروٹسٹنٹ ہیں۔ نائجیریا میں چھ اور جنوبی افریقہ میں 3کروڑ لوگ اسی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کانگو بھی پروٹسٹنٹ ملک ہے۔ برطانیہ کیتھولک سے پروٹسٹنٹ مذہبی نہیں‘ ’’انتقامی ‘‘ بنیادوں پر بنا۔ بادشاہ ہنری ھشتم نے اپنی ملکہ کیتھرائن کو طلاق دے دی۔ پاپل امپائر کے تحت اس طلاق کی منظور پوپ سے لینا ضروری تھی۔ پوپ نے انکار کر دیا جس پر کنگ ہنری غصے میں آ گیا اور پروٹسٹنٹ ہو گیا۔ اور رومن چرچ کے بجائے چرچ آف انگلینڈ کھڑا کر دیا۔ یہ 1532ء کی بات ہے اس کے بعد ایڈورڈ ششم آیا۔ اس کے بعد ملکہ میری نے حکومت سنبھالی جو کٹڑ کیتھولک تھی۔ اس نے پروٹسٹنٹ رہنمائوں کا قتل عام کیا۔ تاریخ میں اسے بلڈی میری (خونخوار میری) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کی حکومت مختصر رہی‘ اس کی جگہ ملکہ الزبتھ نے لی۔ جو پروٹسٹنٹ تھی۔ اس کے بعد کنگ جیمز آیا جس نے فیصلہ کیا کہ بائبل محض پادریوں کے پاس نہیں ہونی چاہیے۔ اس نے مروج اور آسان انگریزی میں بائبل کا معیاری ترجمہ کر دیا اور عوامی سطح پر اسے چھایا۔ آج جو بائبل پڑھی جاتی ہے اسے کنگ جیمز کی بائبل کہا جاتا ہے۔ گویا ایک ’’طلاق‘‘ برطانیہ کے کیتھولک ازم سے ’’رجوع‘‘ کا باعث بن گئی۔ ٭٭٭٭٭ آج کے پروٹسٹنٹ بالعموم جنگ باز ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ زور امریکہ میں ہے۔ کیتھولک چرچ کے برعکس ان کا کوئی مرکزی گرجا ہے نہ نظم‘بے شمار گروہ اور جماعتیں ہیں اور ہر ایک نے اپنے فرقے کا الگ نام رکھا ہوا ہے‘ کیتھولک مذہب مسلمانوں کے بارے میں کہیں نرم خو اور کہیں کم جارح ہے۔ یہ صورتحال اچھی ہے۔ دونوں مذاہب کے نزدیک حضرت ابراہیمؑ اور بیت المقدس دونوں محترم ہیں۔ قبہ صخریٰ کو یہودی گرانا چاہتے ہیں۔ عیسائی نہیں۔ کیتھولک اور مسلمان علماء مل کر بیت المقدس کے منصفانہ انتظام پر متفق ہو کر دبائو بڑھائیں تو ایک بڑی مصیبت مشرق وسطیٰ کی دور ہو سکتی ہے۔ لیکن بات پھر وہی ہے’’اختیار اعلیٰ‘‘ ان کے پاس نہیں۔ جنگ باز کارپوریٹ سیکٹر کے پاس ہے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے(نوٹ۔مسیحیوں کے تیسرے فرقے آرتھوڈاکس کی آبادی 25کروڑ‘ مسلمانوں کی کل آبادی پونے دو ارب ہے۔ مسیحی ملا کر دو ارب35کروڑ سے زیادہ بنتے ہیں۔