گزشتہ دنوں کی غیر حاضری کا سبب خاصا معقول ہے۔گھر کی تبدیلی اور اسباب کی منتقلی کوئی آسان کام نہیں بالخصوص جب آپ کے گھر میں کوئی مرد نہ ہو یعنی سچ مچ کا مرد جو ہنسی خوشی آپ کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پہ اٹھا لے اور اسباب بھی وہیں کہیںرکھ کر مقام مقصود پہ حسب منشا(آپ کی) دھر دے۔ساتھ ہی وہ قلی قسم کا مرد، آپ کی معاشی ذمہ داری تو اٹھائے گا ہی لہذٰا آپ کو یہ فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ بھاری اضافی اخراجات کہاں سے پورے ہونگے۔وہ بظاہر مرد تو ہوگا ہی لہذا آپ کو یہ درد سر مول لینے کی بھی حاجت نہیں کہ لیبر کے ساتھ منہ ماری کون کرے گا۔پلمبر اور الیکٹریشن سے کون نمٹے گا۔گھر کے سامان کی منتقلی کے لئے انتظامات کون کرے گا۔ اگر اس عمل کے دوران ناہنجار ٹرک ڈرائیور کا چالان ہوجائے تو وہ کون چھڑائے گا اور اس سے بھی پہلے اسے بھرے گا کون۔ ممکن ہے ٹریفک وارڈن کے ساتھ اس نے پہلے ہی معاملہ طے کر رکھا ہو۔چالان کی پرچی تو اسے ہی کاٹنی ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ دو گھنٹوں میں ایک ہی جرم میں دو بار چالان کٹ جائے۔یہ سب آپ کی سمجھ میں آ بھی جائے تو آپ کونسا تیر مار لیں گی؟آپ کے ڈرائیور نے آپ کی گاڑی کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی۔ کچھ آپ کی غفلت بھی تھی۔اسے بھی علم ہے کہ گاڑی اس کے والد بزرگوار کی نہیں ہے۔ اس نے کئی ماہ سے انجن کا تیل تبدیل نہیں کروایا اور اسی حالت میں اس عفیفہ کو گھسیٹتا در در بھٹکاتا پھرا ہے۔ اب آپ کاخرچہ دوگنا ہوگیا ہے۔ ٹیوننگ اور انجن آئل کی تبدیلی ایک طرف رہی،بیٹری جواب دے گئی ہے۔ اب آپ اسے مسلسل فون کریں لیکن وہ سال میں تیسرا ہنی مون منانے فیصل آباد چلا گیا ہے یا اپنے نئے نکور ساتویں برخوردار کی تقریب مسلمانی میں بے حد مصروف ہے لہذا اپنا خون جلانے سے بہترہے کہ آپ اپنی گاڑی بچائیں جو چھوٹی سی ہے اور مشکل سے خریدی گئی ہے اور اب کسی نکمی اور اڑیل بھینس کی طرح گیراج میں کھڑی دھول پھانک رہی ہے۔اس حالت میںاسے نہ چھوڑا جاسکتا ہے نہ اپنے ساتھ نئے گھر منتقل کیا جا سکتا ہے جو کم سے کم ایک گھنٹے کی مسافت پہ ہے۔اب آپ کس مکینک کے منہ لگنا پسند کریں گی یہ بھی ایک سوال ہے کیونکہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔ چونکہ آپ خود کو کینیڈا یا امریکہ میں محسوس کرتی ہیں تو آپ کے ہاتھ ایک ایسی موٹروہیکل سروس کا اشتہار لگتا ہے جو گھر پہ ہی آپ کو مرمت اور ٹیوننگ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ آپ اسے غنیمت سمجھیں گی اور اسے بلا کر اپنے سر سے بلا ٹالیں گی۔ اس کام کے جائز ناجائز اخراجات آپ کے سر اور گناہ ثواب موٹر وہیکل سروس کے میکینک کے سر جس کی اسے کوئی خاص پروا نہیں ہوگی۔ابھی مالک مکان سے آپ کے معاملات ختم نہیں ہوئے۔آپ ہر ماہ باقاعدگی سے کرائے کا ایڈوانس چیک دیتی رہی ہیں اور اس کے گھر کو اپنا گھر سمجھ کر آپ نے بے حد پیار سے سنبھال رکھا ہے، اس میں انگور اور سفید گلاب کی بیلیں لگا رکھی ہیں جنہیں چھوڑ کر جاتے آپ کا دل بھر آرہا ہے، تب بھی مالک مکان کو اچانک ہی اپنی کروڑوں کی جائداد آپ کے نوٹس دیتے ہی خطرے میںنظر آنے لگے گی۔اسے گھر کی ایک ایک کیل ویسی ہی چاہئے جیسی چار سال قبل اس نے آپ کے حوالے کی تھی۔اگر اس نے اپنا برانڈ نیو ڈبہ پیک گھر آپ کو بھاری کرائے پہ دے ہی دیا تھا تو آپ کو چاہئے تھا کہ اس کی پلاسٹک کوٹنگ کروا کے رکھتیں اور خود پڑوسیوں کے گھر رہ پڑتیں تاکہ وہ اس یادگارموقع پہ جوں کا توں مالک مکان کے حوالے کیا جاسکتا۔اب چونکہ آپ سے یہ غفلت ہو ہی گئی ہے تو آپ کی تین ماہ کی سکیورٹی اس لئے دھر لے گا کیونکہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے۔وہ بھلا آدمی بھی ہوا تو یقین کیجیے اس کا پراپرٹی ڈیلر ایک نمبر کالچہ ہوگا جو آپ کی جیب سے پیسے نکلوا کر اپنی جیب میں ڈالے گا اور اس کی ہوا بھی مالک مکان کو نہیں لگنے دے گا۔ایسا لیکن ہوگا ہی کیوں، درحقیقت آپ کا مالک مکان ہی ایک نمبر کا دو نمبر ہوگا۔اسے اچھی طرح علم ہوگا کہ اکیلی شریف عورت جتنی مضبوط ہوتی ہے اتنی ہی کمزور بھی ہوتی ہے اس لئے اسے پریشر میں لانا اور ہراساں کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہی نہیں اس کا استحقاق بھی ہے۔اس قسم کے لوگوں کا اس طرح کے معاملات میں خاصا طویل تجربہ ہوتا ہے۔ آپ ان کی سطح پہ جان مار کرگر بھی جائیں تو اپنی ناتجربہ کاری کے ہاتھوں منہ کی کھائیں گی ۔اتفاق سے آپ پڑھی لکھی ہیں اور صحافت جیسے معزز پیشے سے باعزت طور پہ وابستہ ہیں ،یعنی اس قدر کہ آپ اپنی اس پیشہ ورانہ حیثیت کا استعمال بھی نہیں کرنا چاہتیں تو آپ کے پاس کورٹ کچہری کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔یہ نوبت اس لئے آئے گی کیونکہ گھر میں کوئی مرد نہیں ہے اور گھر سے باہر کے مرد اس سہولت کا فائدہ اٹھارہے ہیں۔اب اگر سوسائٹی انتظامیہ ہی آپ کو حق بجانب سمجھ کر آپ کے حق میں فیصلہ کردے تو شکرانے کے سونفل پڑھیے ورنہ ایسا ضروری نہیں تھا۔کتنی ہی بے یارو مددگار عورتیں حق بجانب ہوتے ہوئے انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں کے برامدوں میں رلتی پھر رہی ہیں ۔ ایسے بہت سے معاملات ہیں جنہیں سمجھنے میں ہی عورت کی عقل آدھی رہ جاتی ہے ۔ مرد ، مرد کو اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ وہ اس کے طریقہ واردات سے واقف ہوتا ہے۔ اب وہ اس سے نمٹنے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ بات ہے ۔ پاکستانی عورت خوش نصیب ہے جسے ایسا پاکستانی مرد نصیب ہوتا ہے اور چونکہ عام طور پہ ایسا ہوجاتا ہے لہذا پاکستانی عورت مزے کرتی ہے۔سوائے ان کے جنہیں گھر بدلتے ہوئے شدت سے کچھوا ،گھونگھا یا خانہ بدوش ہونے کی خواہش ہوتی ہے کہ یہی وہ خوش نصیب ہیں جنہیں یہ سہولت حاصل ہے کہ جب دل چاہے منہ اور گھر اٹھائے ایک نئے مقام کا رخ کریں۔ہم چونکہ ان میں سے کوئی نہیں لہذا شدت سے خواہش ہوئی کہ دنیا کے مال واسباب کو انٹرنیٹ پہ کوڑیوں کے دام بیچ ڈالیں اور خود بھبھوت مل کر کسی جنگل کا رخ کریں۔ ترک دنیا اور فقر اختیار کریں ۔پتے باندھیں اور وہی کھائیں۔ہاتھ میں ایک پیالہ ہو جو کیکر کا تنا کاٹ پیٹ کر اپنے ہاتھوں سے گھڑا ہو۔اسی میں پانی پئیں اور اسی میں قریبی چشمے سے ٹھنڈا پانی بھر کے دیگر ہم جنگل محوخواب درویشوں پہ انڈیل کر انہیں خواب غفلت سے بیدار کریں۔ٹاٹ پہ سوئیں اور اسی پہ سارا دن لوٹتے رہیں۔ ایسا چونکہ ممکن نہیں لہذا کمر اور اسباب باندھنے اور مردوں کی دنیا میں مردانہ وار جینے کے سوا چارہ ہی کیا ہے؟