جنوری کا مہینہ جب بھی آتا ہے ، ہمیں بے شمار چیزوں کے ساتھ ساتھ اُردو کے بے مثل مزاح نگار، لاجواب سفرنامہ نگار،دل فریب شاعر اور سب سے بڑھ کے دنیائے صحافت کے انمول رتن ابنِ انشا کی یاد دلاتا ہے … جنھوں نے اپنا سارا نثری سرمایہ کالموں کی صورت تخلیق کیا۔ کمال یہ ہے کہ جو بھی کالم لکھا، ادبِ عالیہ کی شکل اختیار کر گیا۔ کالم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تیز آنچ پہ کھانا پکانے والا شعبدہ ہے۔اس میں کھانے کے جل جانے، کچا رہ جانے یا بے مزہ ہونے کے سارے امکانات موجود ہوتے ہیں، لیکن اس شخص کا کمال دیکھیے کہ اس نے اس جلتی بلتی آگ پہ بھی ہمیشہ میٹھا ہی پکایا ہے۔ جس زمانے میں ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے اُردو میں جمالیاتی تنقید کا یہ اچھوتا جملہ تخلیق کیا تھا کہ: ’’ہم اُردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘‘ تو مشتاق احمد یوسفی نے برملا ارشاد فرمایا تھا کہ مزاح کے موجودہ دور کو اگر کسی نام سے منسوب کیا جا سکتا ہے تو وہ ابنِ انشا کا نام ہے۔تو دوستو! آج ہمارے اسی پیارے، نیارے، اُردو صحافت کے راج دُلارے ، اُردو ادب کے روشن استعارے، کالم نویس، مزاح نگار، ابنِ انشا کی بیالیسویں برسی ہے۔یہ ایسا ظالم معجز نگار ہے کہ شاعری کرنے پہ آتا تو رلا رلا کے مار دیتا ، اور نثر لکھنے پہ آتا تو ہنسا ہنسا کے مار دیتا۔ سنجیدہ ترین قسم کی شاعری میں تین مجموعے ،چاند نگر، دلِ وحشی اور اس بستی کے اک کوچے میں، شایع ہوئے۔ شاعری میںبھی ان کا رنگ الگ سے پہچانا جاتا ہے۔انشاجی اٹھو اب کوچ کرو/ کل چودھویں کی رات تھی/ تم انشا جی کا نام نہ لو/ جلے تو جلاؤ گوری/ اب عمر کی نقدی ختم ہوئی، جیسی غزلوں، نظموں سے عالمگیر شہرت حاصل کی۔پھر اپنے شگفتہ اور چلبلے اسلوب سے سفرنامے اور کالم جیسی خشک اور بے ذائقہ اصناف کو خوش رنگ اور دل بہار فلیور عطا کیے۔ یہ سفرنامے، چلتے ہو تو چین کو چلیے، آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں اور نگری نگری پھرا مسافر، کے عنوانات سے چھپے اور متنوع موضوعات پر لکھے سینکڑوں کالموںنے، خمارِ گندم، آپ سے کیا پردہ اور باتیں انشا جی کی، کے ناموں سے کتابی روپ اختیار کیا۔ تعلیمی اداروں میں سال ہا سال سے رائج گھسے پٹے نصابوں کی’’اُردو کی آخری کتاب‘‘ کے عنوان سے ایسی زندہ پیروڈیاں کیں کہ خود محکمہ تعلیم والے ان پیروڈیوں کو شاملِ نصاب کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ہمارا یہ یگانہ مزاح نگار پندرہ جون 1927ء کو مشرقی پنجاب (لدھیانہ) کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک غریب راجپوت (کھوکھر) اور کثیر العیال گھرانے میں پہلوٹی کے بچے کے طور پر پیدا ہوا ۔ گھر والوں نے روا روی میں شیر محمد نام رکھ دیا لیکن یہ نام انھوں نے ارود ادب میں نام پیدا کرنے سے پہلے ہی بدل لیا۔نام تبدیل کرنے کی وجہ اپنے مخصوص اسلوب میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’ابنِ انشا، نام ہم نے نہ جانے کب رکھا تھا؟ اور کیوں رکھا تھا؟ کیوں رکھا تھا کی توجیہہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے اصلی نام میں ایک چوپائے کا نام شامل ہے۔ نیا نام رکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگ سید انشا اللہ خاں انشا کی رعایت سے ہمیں بھی سید لکھنے لگے، یعنی گھر بیٹھے ہماری ترقی ہو گئی۔‘‘ ادب و صحافت کے نگار خانے میں ابنِ انشا کی انفرادیت یہ ہے کہ نہ اس نے کسی کے انداز کو کاپی کرنے کی دانستہ کوشش کی اور نہ کسی سے اس کا بے ساختہ اسلوب چرایا جا سکا۔ اردو نثر میں سہلِ ممتنع کی ان سے بڑی مثال ملنا محال ہے۔اردو مزاح میں وہ کرافٹ مین شپ کی بجائے، ظرافت مین شپ کے قائل ہیں۔ان کے اندازِ تحریر کی انفرادیت، سادگی اور بے ساختگی کی کہانی بھی خود انھی کی زبان سے سنیے: ’’مشرقی پنجاب کے دوآبے کا دہقانی کہیں بھی پہنچ جائے، لاہور کہ دلی، لندن کہ کیلی فورنیا، اپنی ادا سے فوراً پہچانا جاتا ہے۔یہ لوگ لکھتے بھی ہیں تو وارث شاہ کے استاد کے بقول: مونج کی رسی میں موتی پروتے ہیں، لیکن ابنِ انشا کو موتی چنداں نہیں بھاتے۔ اپنی مونج کی رسی میں وہ کاٹھ کے منکے پروتا ہے۔ اس کا محاورہ اور لہجہ دہلی، لکھنو،ہر جگہ کی سکہ بندی سے دور ہے اور سچ پوچھو تو یہی ایک سلیقے کی بات اس نے کی ہے، ورنہ ادب کے بازار میں جس کی تعریف پوچھو… اپنے کو فلاں ابنِ فلاں اور موتیوں کا خاندانی سوداگر بتاتا ہے۔‘‘ قارئینِ کرام! آئیے آج اپنے اس اچھوتے اور قابلِ رشک مزاح نگار کو ایصالِ سواد کی خاطر، اسی کے اقتباسات کا خراج پیش کر کے بقول غالب، ہجر میں وصال کے مزے لیتے ہیں: ٭اورنگ زیب عالمگیر، بہت لائق اور متدین بادشاہ تھا۔ دین اور دنیا ، دونوں پر نظر رکھتا تھا۔ اس نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی اور کسی بھائی کو زندہ نہ چھوڑا۔ ٭اخبار جنگ میں ’آج کا شاعر‘ کے عنوان سے ہماری تصویر اور حالات چھپے۔چونکہ حالات ہمارے کم تھے، لہٰذا ان لوگوں کو تصویر بڑی کرا کے چھاپنی پڑی اور قبول صورت، سلیقہ شعار، پابندِ صوم و صلوٰۃ اولادوں کے والدین نے ہماری نوکری، تنخواہ اور چال چلن سے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کر دیں۔ یوں عیب بینوں اور نکتہ چینوں سے بھی دنیا خالی نہیں۔کسی نے کہا : یہ شاعر تو ہیں لیکن آج کے نہیں، کوئی بے درد بولا: یہ آج کے تو ہیں لیکن شاعر نہیں۔ہم بد دل ہو کر اپنے دوست جمیل الدین عالی کے پاس گئے۔ انھوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا کہ دل مَیلا مت کرو ، یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں، ہم نہ تو تمھیں شاعر جانتے ہیں ، نہ آج کا مانتے ہیں۔ ٭ ہمارا اسلام کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ زمینداروں کی حمایت، زرداروں کی کاسہ لیسی، گھی میں موبل آئل اور ہلدی میں اینٹیں ملانے، جھوٹ بولنے، کم تولنے وغیرہ سے اسے کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ہاں مشین کا کٹا ہوا گوشت اس کے لیے سخت مضر ہے۔ خود ہمارے شہر میں ہزاروں لوگ ایسے ہوں گے کہ شام کو شراب پینے بیٹھتے ہیں تو اس کے ساتھ فقط ذبیحہ کھاتے ہیں۔ رشوت کا پیسہ بھی بغیر بسم اللہ کے اپنی جیب میں نہیں رکھتے اور جوئے کا داؤ بھی دعائے قنوت پڑھے بغیر نہیں لگاتے۔ ٭اپنے صحافی بھائیوں کو ہم مبارک باد دیتے ہیں کہ ان کو نہ صرف پلاٹ ملے گا بلکہ اس رعایت کا بھی اعلان ہو گیا ہے کہ وہ صحافی جو واقعی مستند صحافی ہیں ، یعنی جن کے پاس اپنے اخبار کا شناختی کارڈ ہے، اسے دکھا کر چڑیا گھر مفت دیکھ سکتے ہیں۔یہ اعلان کراچی کارپوریشن کے چیئر مین نے کیا ہے…ہمیں یہ معلوم نہیں کہ شام کو چڑیا گھر کا وقت ختم ہونے پر ان کو باہر نکالنے کا بھی حکم ہے یا… ٭بندر تو قریب قریب سب کے سب ڈارون کی اس تحقیق پر ناخوش ہیں۔ وہ انسان کو اپنی اولاد ماننے سے یکسر انکاری ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے نسب سے ہوتے تو ان کے دُم ہوتی۔ انھیں کون بتائے کہ صاحبانِ اقتدار کے سامنے ہلاتے ہلاتے گھس گئی ہے۔ ڈارون کو چاہیے تھا کہ اپنی رائے دینے اور فلسفہ بگھارنے سے پہلے کسی بندر سے بھی پوچھ لیتا کہ بتا تیری رضا کیا ہے؟ وہ انکار کر دیتا تو حق بجانب تھا کیونکہ آپ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی اپنے اسلاف کو پکڑ کر پنجرے میں بند کر دے۔