وفاقی حکومت نے کابینہ ارکان کے تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایف اے ٹی ایف کی شرائط اور معیشت میں بہتری لانے کے نام پر ایک اور صدارتی آرڈ یننس جاری کر دیا ہے۔ جس کے تحت 10ہزار ڈالر سے زائد کرنسی اور 15تولے سے زائد سونا بیرون ممالک لے جانے پر بھاری جرمانے اور سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ کرنسی ‘ سونا اورچاندی بیرون ملک لے جانے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ 14برس تک قید اور کل مالیت کا 10گنا تک جرمانے کی سزائیں دی جا سکیں گی۔ سمگلنگ ہمارے ملک میں ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے جس نے ہماری معیشت کو تباہ و برباد کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ اس ناسور کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے سمگلنگ کے خاتمے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ حالیہ صدارتی آرڈی ننس بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس سے نہ صرف سمگلنگ پر قابو پا نے میں مدد ملے گی بلکہ جو لوگ اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں،انہیں کڑی سزائیں دے کر دوسروں کے لئے ایک مثال بنانے میں بھی آسانی ہوگی۔ سمگلنگ نہ صرف ملکی وسائل اور آمدنی کو متاثر کرتی ہے بلکہ ملکی صنعت کی تباہی کا باعث بھی ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں سرحدوں پر سمگلنگ کی روک تھام کے لئے نہ صرف باڑ نصب کی بلکہ سرحد کے قریبی علاقوں پر حکومتی رٹ بحال کر کے وہاں پر باقاعدہ جزا و سزا والا نظام بھی نافذ کیا ہے۔ ہمارے ہاں سزا کا نظام بھی عجب ہے۔ یہاں بااثر سیاسی اور پیسہ رکھنے والے افراد کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ہماری مغربی سرحد سمگلنگ کی بڑی منڈی بنی رہی۔ سرکاری اثرورسوخ رکھنے والے بعض افراد بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہ تھے، اسی لئے جب وفاقی حکومت نے صدارتی آرڈی ننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو کابینہ میں بیٹھے بعض وزراء نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ بدقسمتی سے بھارت‘ افغانستان ‘ ایران اور چین کی سرحدوں پر سمگلنگ ہو رہی ہے ،جس سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کوئٹہ اور پشاور میں تو باقاعدہ سمگلنگ شدہ مال کی منڈیاں قائم ہیں۔ بلوچستان اور صوبہ خیبر پی کے کی معاشی بدحالی کی ایک وجہ سمگلنگ بھی ہے ‘ کیونکہ تفتان، پنجگور اور ماشکیل کے علاقوں میں سمگلرز نے ایسے خاص پوائنٹ مقرر کر رکھے ہیں جہاں پر سکیورٹی اداروں کی توجہ ذرا کم ہوتی ہے۔ اس لئے وہاں سے بلا روک ٹوک اشیاء لائی اور بھیجی جاتی ہیں۔ اسی طرح افغان بارڈر پر بھی ایسے خفیہ راستے موجود ہیں جو بارڈر پر باڑ کی تنصیب کے باوجود کھلے ہیں۔ انہیں راستوں سے کوئٹہ میں رہائش پذیر افغان مہاجرین آتے جاتے ہیں اور یہاں سے ہی سمگلنگ کی جاتی ہے۔ اگر مغربی سرحد کا جائزہ لیا جائے تو باڑ کی تنصیب سے قبل وہاں بھی سرعام اشیاء کی سمگلنگ کی جاتی تھی۔ افغان بارڈر سے متصل سرحدی آبادیاں سمگلنگ کے مراکز کے طور پر جانی جاتی تھیں۔ پاک فوج نے بڑی مشکل سے جانی قربانیاں پیش کر کے اب اس سرحد کو محفوظ بنا دیا ہے لیکن اس کے باوجود سمگلر کوئی نہ کوئی چور راستہ تلاش کر کے اپنے مذموم مقاصد پورے کرتے رہتے ہیں۔ جس کے باعث پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف بڑی شدت کے ساتھ ایک عرصے سے سمگلنگ کے خاتمے کے لئے قانون سازی پر زور دے رہا تھا جس پر صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے قانون سازی کی گئی ہے اس سے نہ صرف پاکستانی معیشت میں موجود سقم دور ہوں گے بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمارا امیج بہتر ہو گا۔ پاکستان میں بڑے بڑے سیاست دان اس دھندے میں ملوث رہے ہیں۔ اب بھی ایف آئی اے اور نیب بے نامی اکائونٹس اور سمگلنگ کیسز بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔ درحقیقت سمگلنگ جیسے ناسور کے بارے قانون سازی نہ ہونے سے بڑے بڑے مگرمچھ دھڑلے سے یہ کام کرتے تھے۔ کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ پکڑے جانے کی صورت میں انہیں صرف معمولی سزا ملے گی ۔اس لئے چند مہینے جیل میں گزار کر باہر آ جائیں گے۔ حکومت نے اب جو قانون بنایا ہے اس پر پورے خلوص نیت اور طاقت سے عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔ اگرمؤثر عملدرآمد نہیں ہوتا تو پھر مطلوبہ مقاصد کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ ماضی میں ہمارے سیاستدان اور تاجر ٹیکس سے بچنے کے لئے بھی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ سو اب اس میں خاص حد تک کمی واقع ہو چکی ہے لیکن ابھی مزید اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ منی لانڈرنگ اور سمگلنگ جیسے جرائم ہمارے معاشرے میں رچ بس چکے ہیں، انہیں آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایان علی کرنسی سمگلنگ کیس ہمارے سامنے ہے۔ ضمانت ہونے کے بعد ملزمہ آج تک واپس نہیں آئی۔ ایان علی بھی کسی بااثر شخص کے لئے یہ دھندہ کرتی تھی لیکن ملزمہ کے سرپرست نے اسے کیسے ملک سے باہر نکالا وہ سب کے سامنے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سمگلنگ اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم پر قابو پانے کے لئے قانون سازی تو کر دی ہے لیکن جب تک ان جرائم میں ملوث افراد کو سزائیں دلوانے کے لئے متعلقہ اداروں کے افسران کو احکامات جاری نہیں کیے جاتے تب تک ملزمان ضمانتیں کروا کر سرعام دندناتے پھرتے رہیں گے۔ ایف آئی اے ‘ نیب اور دیگر اداروں کے پاس وکلاء کی مضبوط ٹیم ہونی چاہیے۔ ورنہ رانا ثناء اللہ کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ اے این ایف کے حکام اب بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔لیکن اس کے باوجود ملزم کو ضمانت مل جانا وکلا ٹیم کی حکمت عملی کے نقص پر دلالت کرتا ہے ، دراصل جب تک تفتیشی اداروں کے وکلاء تیاری کے ساتھ کیس نہیں لڑیں گے تب تک ایسے واقعات کو روکنا مشکل ہو گا ۔اس لیے تفتیشی اداروں کو بھی بھر پور تیاری سے ہوم ورک کرنا ہو گا تب ہی اس آرڈیننس سے مؤثر فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔