ان کو بچھڑے ہوے ربع صدی گزر گئی کیا انمول انسان تھے ان سے جب بھی ملا انہیں جب بھی دیکھا وہ مجھے مایوسیوں میں امید کا چہرہ نظر آئے۔ ایک طبیب کی حیثیت سے ہمت اور دل ہارتے ہوئوں کے لئے تو وہ زندگی کی علامت تھے، دھیمی اور میٹھی آواز کے ساتھ آنکھوں میں مخصوص روشنی اور محبت کا رنگ ہوتا۔ زندگی میں کسی بھی شخص کو وقت کا اتنا پابند نہیں دیکھا جو حکیم سعید کا شیورہ تھا ۔مجھے متعدد بار ان سے انٹرویوز کرنے ان کے ساتھ ہمدرد یونیورسٹی جانے‘ مدینہ الحکمت میں قطار در قطار آراستہ کتب سے ااستفادہ کرنے حکیم صاحب کی بچوں کے ساتھ خصوصی محبت اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ان کی فکر اور کاوشیں سب یادیں آج بھی ترو تازہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کسی شریر بچے کو دیکھ کر ایک شفیق سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر بکھر جاتی میں جب بھی ان سے ملتا تو کیا ہو رہا ہے کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہونا چاہیے۔ جیسے سوالات پر وہ انتہائی شستہ ‘ پر مغز انداز میں بلا خوف اور بغیر لگی لپٹی بولے جاتے جیسے وطن سے بے لوث محبت کرنے والا دانشور اور مدبر اپنا دل کھول کر سچائی بیان کر رہا ہو یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں دہشت گردی کی لہر نے خوف و سراسیمگی کی کیفیت پیدا کر رکھی تھی اس دن اپنے مطب میں خلاف معمول تھکے تھکے لگے رہے تھے میں نے انہیں کبھی ایسا دل گرفتہ نہیں دیکھا تھا میں نے ان سے دریافت کرنے کی جسارت کر ہی ڈالی ۔کہنے لگے وہ بڑے پرآشوب دن تھے لیکن ساتھ یہ ساتھ تاریخ ساز بھیآزاد وطن کا تصو۔ر ایک طرف آزادی کی روشنی تھی جبکہ دوسری طرف قتل و غارت کا بازار گرم تھا، ایک طرف امید کی صبح نو تھی۔ دوسری طرف تاج برطانیہ کا زوال وہ ایسا وقت تھا جب دو ملکوں کی تاریخ روشن ہو رہی تھی۔سچی بات تو یہی تھی کہ ہم نے سوچا تھا پاکستان چلتے ہیں کم از کم ہمارے سجدے تو آزاد ہوں گے کیونکہ وہاں دہلی میں کئی بار ایسا ہوا کہ ہم نماز پڑھنے جاتے تو ہندو مسجدوں میں سور چھوڑ دیتے، خانہ خدا کے دروازے پر ڈھول پیٹا کرتے تھے، ہجرت کے وقت ہم سوچ رہے تھے کہ چلو پاکستان میں کم از کم ہماری مسجدیں تو محفوظ ہوں گی لیکن آج جب وطن عزیز میں اپنی مسجدوں کو غیر محفوظ دیکھتا ہوں کہ یہاں گا گارڈز کے بغیر مسجدوں میں یکسوئی سے نماز ادا نہیں کر سکتے سچ پوچھیں تو ایسا کبھی سوچا نہیں تھا یہ کہتے کہتے ان کی آواز لڑکھڑا گئی۔ جب وہ گورنر سندھ تھے تو ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو کہنے لگے ساتھ کھانا بھی کھا لینا۔ میں مقررہ وقت سے دس منٹ تاخیر سے پہنچا۔ انہوں نے تاخیر کی وجہ دریافت کرنے کے بجائے صرف گھڑی پر نظر ڈالی میں اشارے کا مفہوم سمجھ گیا ۔میں نے دریافت کیا کہ اتنی بڑی سرکاری رہائش گاہ میں رہتے ہوئے آپ کو الجھن یا اجنبیت تو نہیں لگتی ،یہاں بیٹھ کر کام کرنے میں یہ فخر ضرور محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کبھی قائد اعظم بھی رہتے تھے۔بابائے قوم کے ساتھ تو نہ جانے کتنی یادیں وابستہ ہیں انہوں نے مسلمانوں کے لئے یہ وطن بنایا تھا کہ جذبوں سے سرشار ہم بھی یہاں چلے آئے۔ میں نے جھٹ پوچھا کہ کبھی حالات دیکھ کر آپ کو پاکستان آنے پر پچھتاوا تو نہیں ہوتا انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ نہیں نہیں بالکل نہیں ہرگز نہیں یہ فیصلہ تو ہم نے خود کیا تھا میرے بڑے حمید بھائی کا خیال تھا کہ میں بھی دہلی میں رہ کر ان کا ہاتھ بٹائوں ۔انہوں نے متعدد بار مجھ سے کہا کہ سوچ لو لیکن میں تو پاکستان سے جیسے عشق کرتا تھا بس اسی محبت میں چلا آیا۔ پھر یہ بھی اللہ کا کرم اور اس سرزمین کا کمال تھا کہ میں نے بہت ہی کم رقم سے جو ادارہ قائم کیا تھا آج وہ ملک کے بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے لیکن پھر یہ بتدریج کیا ہو گیا کبھی آپ کو ان حالات پر ملال ہوتا ہے۔ ان کی آواز رندھ گئی۔ کہنے لگے جی ہاں بہت ہوتا ہے اخبارات پڑھتا ہوں۔ یہاں کی سیاست کے حالات دیکھتا ہوں۔ عام ہم وطنوں کے دکھ درج اور مسائل پر نظر پڑتی ہے سوچتا ہوں کہ ہمیں تو بہت جلد ایک ترقی یافتہ قوم بن جانا چاہیے تھا لوگوں میں بڑا جذبہ اور پوٹینشل ہے پھر بھی ہم اس رفتار سے آگے نہ بڑھ سکے۔حکیم صاحب کہنے لگے میں سوچتا ہوں کہ وہ جذبہ اور ولولہ رفتہ رفتہ دھیما کیوں پڑ گیا ۔ہجرت کرنے والوں کی آنکھوں میں کیسے کیسے خواب تھے اتنے خدشات اور ناچتے ہوئے خطرات کے باوجود لوگ بس وہ سرحد پار کرنا چاہتے تھے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا تھا بہت سی ریل گاڑیاں جو ہندوستان سے چلتے وقت کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں جب پاکستان پہنچیں تو ان میں صرف موت کی خاموشی تھی، وہ جنہوں نے موت کے اس سمندر کو زندہ سلامت پار کر لیا ان کی کہانیاں ناقابل فراموش ہیں ،حقیقتاً اس ملک کو بے مثال جدوجہد اور عظم قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا تھا۔ ماضی میں جھانکتے جھانکتے یہ عالی قدر محب وطن جذباتی ہو گئے تھے میں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے عرض کی ایک طبیب اور انسانی نفسیات کے ماہر کی حیثیت سے آپ کے پاس اس سوال کا جواب کیا ہے کہ ہم لوگ آزادی کے بعد نصف صدی عبور کرنے سے پہلے یہ اتنے چڑ چڑے بیزار اور مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی اچکن کا بٹن سہلاتے ہوئے کہا اس لئے کہ ہم نے آگے بڑھنے سے پہلے اپنی منزل کا تعین نہیں کیا ہم نے اپنی ترجیحات کی ترتیب نہیں بنائی۔ ذرا ہمارے بجٹ پر نظر ڈالیں ہم نے صحت اور تعلیم کے شعبے میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ہمارے ہاں خواندگی کی شرح افسوسناک حد تک کم ہے اس لئے سوال یہ نہیں کہ اس ارض وطن نے ہمیں کیا دیا سوال تو یہ ہے کہ ہم نے اس دھرتی کو کیا دیا ہم نیک نیتی اور بھر پور عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کی صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ نہ کر سکے۔ حکیم صاحب سے جب بھی بات ہوتی تو میرا یہ احساس جاگزیں ہوتا کہ یہی وہ شخص ہے جو 21ویں میں قدم رکھنے کے انداز اور اسلوب کو سمجھتا ہے جو نئی صدی کے دماغ کو سمجھتا ہے جو اپنی تمام تر سادگی کے باوجود وہ اس طرح گفتگو کرتے کہ ایک ایک لفظ ذہن میں رچ بس جاتا تھا ،بڑی مشکل باتیں بڑے آسان اور سبک لہجے میں بیان کر جاتے تھے۔ ٭٭٭٭