شاعر مشرق علامہ اقبال نے تو اپنی مشہور زمانہ نظم شکوہ میں لکھا تھا کہ ’’برق گرتی ہے تو بچارے مسلمانوں پر ‘‘ اور اب مہنگائی اور کرپشن گرتی ہے تو بچارے پاکستانی عوام پر دراصل عوام سے مراد وہ سفید پوش طبقہ ہے کہ جو ہر قسم کی دہشت گردی ، مہنگائی ، کرپشن ، لوٹ مار ، نا انصافی ، ظلم کا شکار ہیں وگرنہ اشرافیہ جن کی تعداد صرف ہزاروں میں ہے وہ اِس سے مبرا ہیں اور یہی ہزاروں افراد عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ دراصل پہلے اخبارات اور ٹی وی پر یہ الفاظ ادا کیے جاتے تھے کہ ’’کمر توڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے لیکن اب کمر توڑ نہیں بلکہ گردن توڑ مہنگائی اورکرپشن نے عوام کو موت سے ہم کنار کر دیا ہے آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ لوگوں نے اب بجلی اور گیس کے میٹر کٹوانا شروع کر دیئے ہیں اور اب ایک دور ایسا بھی آنے والا ہے کہ لوگ مٹی کے دیئے اور لالٹین کا استعمال کرنا شروع کر دیں گے جبکہ سوئی گیس کی جگہ لکڑیاں تو اب استعمال ہو رہی ہیں ۔ ظالم حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں کی خاطر عوام پر گزشتہ دنوں جو گیس بم مارا تھا اُس کے اثرات اب آنا شروع ہو گئے ہیں دسمبر میں جو بل 800 سو روپے تک ہوا کرتا تھا وہ اب اِس ماہ 12 ہزار روپے سے لے کر 50 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے جس سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ عوام کی اب سکت ختم ہو چکی ہے سردیوں میں جو ریلیف عوام کو پنکھے نہ چلا کر بجلی کے بلوں میں ملا کرتا تھا وہ اب ظالم حکمرانوں نے گیس کے بلوں سے وصول کرنا شروع کر دیا ہے ۔عوام اِس وقت شدید مشکلات اور ڈپریشن کا شکار ہیں اور اب اُن پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ کس طرح سے طاقت ور ادارے اُن کی گردنوں پر سوار ہو کر زبردستی گیس ، بجلی اور تیل کی قیمتیں روز بروز بڑھا کر وصولیاں کر رہے ہیں۔ ویسے جو حکمران اپنی عیاشیوں کی خاطر عوام کو ذلیل و خوار کرتے ہیں وہ بھی جلد انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ حالیہ نام نہاد الیکشن کی وجہ سے ملک کے حالات کسی صورت بھی تبدیل نہیں ہو نگے بلکہ پہلے سے بد تر ہو نگے ے وزیر اعظم کاکڑ جو نگران ہو کر بھی عوام پر روزانہ تیل بم برساتا رہا اور اِس طرح پنجاب میں محسن نقوی نے بھی نگران ہو کر اربوں روپے اپنی مرضی سے خرچ کر ڈالے حالانکہ آئین کے تحت کوئی بھی نگران وزیر اعظم اور نگران وزیر اعلیٰ کسی قسم کے فنڈز وغیرہ جاری ہی نہیں کر سکتا لیکن ہمارے ملک میں ہر نا جائز کام جائز ہیں جس معاشرے میں نا انصافی اپنے پورے عروج پر ہو وہاں پھر ہر قسم کی کرپشن جائز بن جاتی ہے اس لیے تو ہم ذلیل ہو رہے ہیں آپ اندازہ لگائیں افغانستان جو گذشتہ 40 سال سے مسلسل جنگ کی زد میں رہا ہے اور جہاں پر نہ تو نہری نظام ہے اور نہ ریلوئے کا نظام ہے اور سب سے بڑ ھ کر جہاں پر میدانی زمین نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ اور پتھریلی زمین ہے لیکن آج ذرا افغانستان کی معاشی حالت پر بھی غور کریں کہ اُس ’’جنگ زدہ اور بھوکے ملک ‘‘کی کرنسی ہم سے کتنی آگے جا چکی ہے کہ افغانستان کا 1 ہزار روپیہ اور ہمارے 3800 سو روپے برابر اُن کا روپیہ روز بروز طاقت ور ہو رہا ہے افغانستان میں کرپشن ختم ہو چکی ہے نا انصافی ختم ہو چکی ہے اور اب مہنگائی بھی ختم ہو چکی ہے جبکہ ہمارے ملک میں یہ تمام برائیاں کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسا سرکاری ادارہ نہیں ہے کہ جہاں پر عوام اپنے حقوق بغیر رشوت دے کر حاصل کر سکتے ہوں پٹواری سے لے کر پولیس کے تھانہ محرر اور واپڈا کے چپڑاسی سے لے کر چیف انجینئر تک سب کھلے عام رشوت لے رہے ہیں ۔ آپ چاہے کتنے بھی با اثر ہو نگے لیکن ہمارے ملک میں بغیر رشوت دیئے اپنا کوئی بھی کام نہیں کرا سکتے ہیں کیونکہ پاکستانی افسران سے لے کر عام چپڑاسی تک تنخواہ سے زیادہ کرپشن کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اِن تمام حالات میں عوام خود بھی ذمہ دار ہیں دراصل ہم نے یہ مفروضہ قائم کر لیا ہے کہ ہم اپنا حق بغیر رشوت دیئے حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم خود ہی دوسروں کا حق مارنے کے لیے اپنے نا جائز کام کرانے کے لیے رشوت اور کرپشن کو فروغ دے رہے ہیں جب ایک نا جائز اور نا اہل رشوت دے کر اپنا کام کرانا چاہتا ہے تو پھر جو حق پر ہوتا ہے وہ بھی رشوت دینا شروع کر دیتا ہے ۔ اور یوں کرپٹ سرکاری اہلکار کے دونوں طرف سے مزے شروع ہو جاتے ہیں لہٰذا کرپشن کو روکنے کے لیے جہاں پر بڑے اور طاقت ور اداروں کی طرف سے سخت ترین قوانین پر عملدرآمد کرانا ضروری ہے تو وہاں پر عوام بھی رشوت دینا بند کریں ہاں ایسے ادارے جہاں پر عوام کا عمل دخل نہیں ہوتا وہاںپر اگر کرپشن اور نا انصافی ہو رہی ہے تو اُن کو روکنا بڑے سرکاری اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے آخر میں یہی کہ اگر آنے والے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے سوئی گیس اور بجلی کے ریٹ کم نہ کیے اور عوام کو اِس گردن توڑ مہنگائی سے نجات نہ دلائی تو پھر عوام سڑکوں پر ہونگے اور اپنے حقوق کی خاطر عوام کو اب کوئی طاقت نہیں روک سکے گی اب اسحاق ڈار کی نا قص پالیساں نہیں چلیں گی اب رمضان بازار اور رمضان پیکج کی بجائے 25کروڑ عوام کو ریلیف دیں ماسوائے چند اشرافیہ کے پورا ملک اب غربت بے روزگاری اور اِن نالائق حکمرانوں کی ناقص پالیسوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے اب عوام کاخون چوسنا بند کریں۔