دو سال پہلے کی بات ہے میں اپنے کمپیوٹر سے کھیل رہا تھا کہ کمپیوٹر پر ایک پیغام آیا۔ کوئی مجھ سے میرا حال پوچھ رہا تھا۔میں کہ ہر حال میں خوش رہنا جانتا ہوں ، چنانچہ اسی حوالے سے اسے اپنے خوش باش ہونے کا جوابی پیغام دے دیا۔ بات چیت شروع ہو گئی۔ آواز کچھ جانی پہچانی تھی مگر کوشش کے باوجود اس شخص کا سراغْ نہ پا سکا۔ اتفاق سے اس نے پوچھ لیا کہ مجھے پہچانا۔ میں نے ہنس کر بتایا کہ بھائی ستر سے زیادہ عمر ہو چکی ۔ رب العزت نے دماغ کی شکل میں جو ہارڈ ڈسک دی ہے ، گو وہ ختم نہیں ہوتی اس لئے کہ یہ ایک مکمل نظام ہے جو ہمارے خیالات، جذبات، دیکھنے، سننے، سونگھنے ،کھانے، پینے سمیت تمام چیزوں کو پوری طرح کنٹرول کرتا ہے ۔دماغ کے نروس سسٹم میں سیلوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ انہیں شمار کرنے میں ایک آدمی کے پچاس سال بھی خرچ ہو جائیں تو بھی ان کا شمار شاید ممکن نہ ہو۔ مگر وہ ہارڈ ڈسک کچھ سست ہو گئی ہے۔کوشش کر رہا ہوں مگر کہیں بیچ میں پھنسا ہوں۔ تم تعارف کرا دو تو دونوں کی مشکل آسان ہو۔ ہنس کر کہنے لگا، احسان شاہ بول رہا ہوں۔ پچاس سال پہلے ہم لوگ یونیورسٹی میں اکٹھے تھے۔ لمحوں میں ذہن کی پردہ سکرین پر کئی چیزیں لہلہائیں اور دل کو شاد کر گئیں۔ شاہ صاحب یونیورسٹی سے امریکہ چلے گئے اور پھر لوٹ کر دوستوں میں نہیں آئے۔ ایسے دوستوں کا ملنا یقیناًکہتے ہیں مسیحا و خضر کی ملاقات سے بہتر ہوتا ہے۔ میں ماضی میں کھویا ہوا تھا کہ شاہ صاحب نے دوبارہ پوچھاکہ واقعی پہچانا کہ نہیں، میں نے ہنس کر پنجابی میں کہا ’’شاہ، تو تے تیریاں ککڑیاں دوویں حالی تک یاد نے‘‘۔ یعنی شاہ تم اور تمہاری مرغیاں دونوں ابھی تک یاد ہیں۔اصل میں مجھے جانور پالنے کا شروع سے بڑا شوق ہے۔ احسان شاہ کے والد کا پولٹری کا بزنس تھا۔ میں چسکے کے لئے اس سے اس کاروبار کی معلومات لیا کرتا تھا۔آج بھی میرا وہ شوق جوان ہے۔ میرے پاس گھر میں اس وقت بھی چالیس کے قریب مرغیاں ہیںاور ان سے کھیلنا میری عادت۔اس پہلی ملاقات کے بعد میراشاہ صاحب سے تسلسل سے رابطہ رہا۔ فون پر بات چیت ہو جاتی رہی، شاہ صاحب کے حوالے بہت سے دوسرے امریکہ میں مقیم دوستوں سے بھی علیک سلیک جاری ہے اور اس بڑھاپے میں یہی علیک سلیک زندگی کا سرمایہ ہے۔ چند دن پہلے پنجاب یونیورسٹی ایگزیٹو کلب میں ایک تقریب تھی۔قائد اعظم یونیورسٹی کے پرانے طالب علم اس تقریب میں موجود تھے۔چند باتیں کرنے کی مجھے بھی دعوت ملی۔باتیں کرکے واپس اپنی جگہ پر آیا تو ایک صاحب ساتھ والی کرسی پر دھم آ موجود ہوئے اور میرے کان میں کہا۔ احسان شاہ،ہم بڑے تپاک سے ملے ۔ وہ جو گلے ملنے کی تمنا ہوتی ہے ،اس تمنا کو پوری پذیرائی دی ۔ وہاں بہت گپ شپ ہوئی ۔ پتہ چلا کہ وہ اپنی ہمشیرہ کے پاس میرے گھر کے قریب ہی ٹھہرا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا بھائی کب آئے، پتہ چلا ابھی دو تین دن پہلے۔ اس محفل میں کیسے پہنچے۔ کہنے لگا کہ فلاں نامور آدمی جسے تم جانتے ہو گے، میرا دوست ہے ۔ وہ مجھے یہاں چھوڑ گیا ہے ، اسے کچھ کام تھا ، اس لئے جلدی چلا گیا۔ میں نے کہا بھائی ، میں مسکین کہاں نامور لوگوں کو جانتا ہوں۔ ملا دو تو تمہاری مہربانی ہو گی۔کہنے لگا، اب تو وہ چلا گیا ہے مگر جلد ماقات ہو گی، میں تم سے ملا دوں گا۔تقریب ختم ہوئی تو کھانے سے پہلے مجھے بھی اپنی فیملی کو ایک جگہ جائن کرنا تھا، اس لئے میں بھی وہ ملاقات ادھوری چھوڑ کر وہاں سے چل دیا۔ بات ہو رہی تھی شاہ صاحب کے اس نامور دوست کی ۔ شاہ صاحب کہنے لگے کہ یار کمال ہے کہ میرا وہ دوست وقت کا سب سے بڑا تجزیہ کار، جس کی آواز کی گھن گرج سے مخالف دہل جاتے ہیں، جس کے کہے کی مخالفت کا لوگوں میں حوصلہ ہی نہیں ہوتا، کوئی ٹیلیویژن اس کی شرکت کے بغیر اپنا پروگرام مکمل ہی نہیں سمجھتا۔وہ تو ٹی وی کے ہر پروگرام کی رونق ہے اور تم اسے نہیں جانتے۔ رہتے لاہور ہی میں ہو یا کہیں اور؟ میں نے ہنس کر بتایا کہ میں لاہور کا آبائی مکین ہوں جس کا سارا خاندان صدیوں سے لاہور میں مکین ہے اور جس کا شاید ہی کوئی رشتہ دار لاہور سے باہر رہتا ہے۔لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں اتنے بڑے آدمی سے شاید اس لئے واقف نہیں ہو سکا کہ میں عموماً اپنے حال میں مست رہتا ہوں۔ میری اپنی ایک چھوٹی سی دنیا ہے اور میں اس دنیا میں بہت خوش ہوں۔ویسے مجھے پتہ ہے کہ ہمارے بہت سے تجزیہ کار حتٰی کہ بہت سارے اینکر بھی عملی طور پر لٹھ بردار ہیں۔ وہ دلیل کے ساتھ ساتھ لٹھ کا سہارا بھی لیتے ہیں تاکہ دلیل بہت وزنی ثابت ہو او ر ایسے لوگ عوام میں بہت پسندیدہ بھی ہیں۔لوگوں کو تبصرے سے کم اور لڑائی جھگڑے سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ شاہ صاحب بتانے لگے کہ اقتدار کے ایوانوں میں میرے اس دوست کا خاص مقام ہے ۔ کچھ اہل اقتدار اس کے رشتہ دار بھی ہیں، مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا، شاہ صاھب یہ نہیں بتا سکے کہ وہ لوگ بھی اسے خاطر میں لاتے ہیں یا نہیں۔شاہ صاحب نے اپنے دوست اور اس کے تعلقات کی بہت تعریف کی مگر اس سے نہ ملنے کی تشنگی قائم ہے۔ شاہ صاحب کہنے لگے، بھارت میں ایک شخص خوش ونت سنگھ ہے اسے جانتے ہو، میں نے کہا، صرف اس حد تک کہ اس کی کچھ کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ میرا دوست بھی پاکستان میں اتنا ہی مشہور ہے جتنا بھارت میں خوش ونت سنگھ۔ شاہ صاحب بتانے لگے کہ کسی نے خوش ونت سنگھ کے بیٹے سے پوچھا ، کہ تمہارا باپ کتنا مشہور ہے کہنے لگا کہ بھارت میں کہیں سے بھی ڈاک کے لفافے پر خوش ونت سنگھ، The Bastard" " لکھ کر اسے پوسٹ کر دو۔ و ہ ہر حال میں اسے مل جائے گا۔ شاہ صاحب کے بقول ان کا دوست بھی ویسا ہی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی علاقے سے اسے خط پوسٹ کرنا ہو، اس کا نام اور نام کے نیچے ـ "The wagabound" لکھ دیا جائے تو وہ پاکستان میں کہیں بھی ہو ، محکمہ ڈاک والے اسے اس کا خط پہنچا دیں گے۔ آج اس بات کو پندرہ دن ہو گئے، شاید شاہ صاحب میری لاعلمی پر مجھ سے خفا ہیں کہ باوجود کوشش کے ملنے کو تیار نہیں۔لیکن ان کے نہ ملنے اور ان کے نامور Wagabound دوست سے نہ ملنے کا افسوس رہے گا۔ ٭٭٭٭٭