کچھ کم نہیں ہے وصل سے یہ ہجر یار بھی آنکھوں نے آج دھو دیا دل کا غبار بھی اپنے نقوش پا کے سوا کچھ نہیں ملا اپنے سوا کوئی نہیں صحرا کے پار بھی دل کی کیفیت بدلتی رہتی ہے۔ اس پر خیال اور اظہار کا انحصار ہے۔آج میں بہت خوش ہوں کہ رانا ثناء اللہ کے منہ سے ایک خوبصورت ترکیب سنی۔خیال آیا کہ کسی سے کسی وقت کچھ بھی سرزد ہو سکتا ہے۔ان دنوں شاہد خاقان عباسی کا نرم لہجہ بھی وہ نہیں رہا کہ ایک تلخی ن لیگ کے رہنمائوں میں ہے۔تاہم رانا ثناء اللہ کے ہونٹوں سے اچھے الفاظ کا ادا ہونا پھول کھلنے کے مترادف ہی ہے۔فرما رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کے حوالے سے اگر میں حسن خیال سے بھی کام لوں تو اتنا ضرور کہوں گا کہ پیپلز پارٹی نے حکومتی ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنا کر اچھا نہیں کیا۔ جو بھی ہے رانا صاحب کی خوش خیالی اور حسن ظن اپنی جگہ ایک اچھا تاثر ہے۔یہ الگ بات کہ فقرے میں ’’اگر‘‘ لگا کر دل کے پھپھولے بھی پھوڑ دیے : تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب تہذیب اس کی دیکھنا آداب دیکھنا ہم تو کنٹینر کی زبان تک سن چکے ہیں کہ ’’اوئے نواز شریف‘‘ وغیرہ وغیرہ پارلیمانی زبان سے تو آپ سب لوگ اچھی طرح واقف ہیں کہ سپیکر الفاظ و ترکیب کو حذب کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اشعار پارلیمنٹ میں اپنے مفاہیم کھولتے ہیں تو گالی کی طرح محسوس کئے جاتے ہیں۔ وہ جو جالب کا شعر ہے ’’حکمران ہو گئے کمینے لوگ۔خاک میں مل گئے نگینے لوگ‘‘ اسی باعث تو فراز نے کہا تھا کہ ان کی نظم ’’محاصرہ‘‘ کبھی پرانی نہیں ہوتی کہ حالات نہیں بدلتے۔ فیض احمد فیض نے لاجواب بات کی تھی کہ پاکستان کے حالات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ انہوں نے تو دونوں بازوں کے لئے کوشش بھی کی تھی اور پھر لازوال غزل بھی کہی’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد۔ یہ دردناک لمحے ہوتے ہیں آفاقی اور دل گداز شاعری کو جنم دیتے ہیں: کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد ہمیں تو شیر کاظمی کبھی نہیں بھولتے۔ ہائے ہائے‘کون سنتا ہے اور اثر قبول کرتا ہے۔خود غرضی اور لاتعلقی۔ مگر ایک ایک بول تاریخ کو اشک بار کرنے والا ’’پھول لیکر گیا آیا روتا ہوا بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں۔قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا یہ چمن ہم کو آدھا گوارا نہیں۔ کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں کھول تو دوں میں رازِ محبت مگر تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں۔ اب تک کشمیر میں اسی طرح ظلم روا ہے۔یہ بات آپ کی درست ہے کہ حکمرانوں کا جینا مرنا ملک کے لئے ہو تو وہ قومی کاز کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایمرجنسی میں بھی بھارت کے ساتھ تجارت کی مخالفت کی: کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں ان کی طرف سے آپ لکھے جواب میں خان صاحب نے یہ بھی درست کہا کہ وہ اکیلے ہی کرپشن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے عدلیہ کو بھی ساتھ دینے کیلئے کہا۔ واقعی ہی خان صاحب۔ تن تنہا کرپٹ لوگوں کے خلاف چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی خارجی سطح پر بھی ہے اور داخلی صورت میں بھی۔ بعض اوقات ان کے اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے۔دوسری بات یہ کہ حکومت بھی تو چلانی ہے۔ انہی لوگوں کے سہارے تو حکومت چل رہی ہے۔ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے بیٹھے تو بنیادوں کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ سراج الحق صاحب نے غلط نہیں کہا کہ وزراء کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہو گا۔ یعنی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔وہی جو پنجاب میں کہتے ہیں ’’اک ہووے کملا تے اوہنوں سمجائے ویہڑا‘جدو ویہڑا ہوئے کملا تے سمجائے کہڑا‘‘بہرحال خان صاحب کی ایمانداری کا سب سے زیادہ فائدہ ان کے دوستوں نے اٹھایا ہے۔ خان صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے ڈسکہ کا پورا الیکشن سبوتاژ کیا وہ کون تھے؟کس کو پکڑا۔ قوم کا کروڑوں روپے غارت گئے: تم ہی اگر نہ سن سکے قصۂ غم سنے گا کون کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے شیخ رشید کا بار بار کہنا کہ اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم ٹھس ہو گئی ہے۔ اگر وہ ٹھس ، تو آپ پھس۔کیا عوام یہی کچھ دیکھتے رہیں گے۔نواز شریف باہر نہیں جائے گا‘ نواز شریف نکل گیا‘ نواز شریف کو واپس لائیں گے‘ مریم نواز کو نہیں جانے دے سکتے‘مریم اڑانے کو پرتول رہی ہیں اور کچھ دنوں بعد پتہ چلے گا کہ چلی گئیں۔آپ کی ساری توانائیاں اس بے کار سرگرمی میں لگ گئیں۔ایک شاعر کا شعر یاد آ گیا: میں تیز ٹردا جاندا ساں تے ہلدیاں میریاں بانہواں سن دیکھیے کیا نکتہ بیان کیا ہے موصوف شاعر نے کہ جب وہ تیز چلتا جاتا تھا تو اس کے بازو بھی ہل رہے تھے۔کبھی آپ نے بچے کی نفسیات دیکھی ہے کہ جب وہ اپنی بات بار بار دہرا رہے ہوتے ہیں اور آپ کی معلومات زیرو کا اضافہ بھی نہیں کرتے۔ آپ مگر سنتے جاتے ہیں۔بعض اوقات سخت اکتاہٹ کا احساس ہونے لگتا ہے۔میں تو اداس ہو کر کبھی کبھی اپنے لان میں بیٹھ کر مرغیوں کو دانہ کھلانے لگتا ہوں۔ادھر ادھر سے چڑیاں بھی اتر آتی ہیں۔یہ منظر مجھے بہت اچھا لگتا ہے خاص طور پر جب اردگرد لگے پودوں سے وہ اڑ کر نیچے آتی ہیں تو شاخیں ہلنے لگتی ہیں۔یہ قدرت کے رنگ ہیں۔ چلیے آخر میں کشمیر کی سرسبز زمین سے ڈاکٹر سیدہ آمنہ بار کے بھیجے ہوئے تازہ اشعار: حصار چشم محبت ترا خدا حافظ نہیں ہے تجھ سے شکایت ترا خدا حافظ تمہارے کنج قفس میں لگا یہ دم گھٹنے نہیں ہوئی تیری عادت خدا حافظ قبائے درد پہ کھلنے گلاب نئے گل مراد کی ساعت ترا خدا حافظ دیے کی لو کو بڑھائوں تو شیشہ حیرت بڑھے گی اپنی ہی وحشت خدا حافظ