میرے جیسے بہت سے تجزیہ نگار سیاست پر لکھتے لکھتے قنوطیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کیو ں نہ ہوں کہ گام تیز تر ہے اور سفر آہستہ۔ چند سو مراعات یافتہ خاندان، معیشت پر بھی انکا قبضہ اور سیاست پر بھی۔ ملک میں آمریت ہو یا جمہوریت انہیں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ ان کے لیے سیاست کھیل ہے۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ سیاست بند گلی میں پھنس گئی ہے، سیاسی ناچاقیاں عروج پر پہنچ گئیں ہیں ، معیشت کی حالات دگرگوں ہیں۔ عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ لیکن یہ لمحہ آخرکار گزرجاتا ہے اور حالات واپس اپنی پرانی ڈگر پر پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان کے مسائل سادہ نوعیت کے نہیں ہیں کہ چٹکی بجا کے حل کر لیے جائیں۔ معاملات لگے بندھے طریقے سے چلتے ہیں۔ مہنگائی ہوگئی ہے تو شرح سود بڑھا دو، تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے تو روپے کو گرادو، عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا ہے تو عالمی اداروں سے قرضہ لے لو۔ ٹیکس لگانا ہے تو ایسے لگا ئو کہ مراعات یافتہ طبقے کا بال بیکا نہ ہو۔ ایسا بڑے عرصہ سے ہوتا آرہا ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی سکرپٹ ہے جو ایک دفعہ لکھ دیا گیا ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ خسارے کی شکار معیشت صرف پریشانی نہیں ہے بلکہ سست رو انتظامی مشینری بھی ایک مسئلہ ہے۔ ریاستی امور میں انتشار ہے اور یکسوئی کا فقدان ہے۔ پورا نظام نوآبادیاتی فکر پر کھڑا کیا گیا ہے اور اس نظام کے پروردہ خاندان اسے تبدیل نہیں ہونے دیتے۔ اچھی حکمرانی موضوع نہیں ہے بلکہ مقصد طاقت کا توازن برقرار رکھنا ہے۔ چھوٹی سے اشرافیائی ٹولے نے ایک ہجوم پر حکومت کرنا ہوتی ہے۔ ظلم و جبر، چھینا چھپٹی، کرپشن اور اقربا پروری فطری باتیں ہیں۔ فرض کی انجام دہی سے زیادہ وفاداری معنی رکھتی ہے۔ جب اشرافیائی سیاست بند گلی میں پہنچتی ہے تو اسی طبقے سے ہی کوئی سامنے آتا ہے تبدیلی کے نعرہ کے ساتھ اورعوام اس کے پیچھے ہولیتی ہے۔ ایک نئے ڈرامے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جلسے، جلوس اور گرفتاریاں۔ ایک دفعہ نئی پارٹی عوام کے کندھوں پر پاوں رکھ کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتی ہے تو اپنے پیچھے دروازہ ہی بند کرلیتی ہے۔ عوام کسی اور مسیحا کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں! تین سال سے اوپر ہوگئے ہیں تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے۔ اہم عوامی معاملات پر کارکردگی صفر، لیکن تبدیلی کا نعرہ بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر لگائے جارہی ہے۔ مان لے کہ غلطی ہوگئی ہے۔ آخر اس کی پیشرو پارٹیوں نے بھی تو اپنے آپ کو نظریاتی سرحدوں سے واپس باہر کھینچا ہے۔ اب بڑے دھڑلے سے طبقہ جاتی مفادات کی سیاست کرتی ہیں ۔ وہ سیاست جس کا مطمع نظر یہ ہے کہ امیر طبقہ ایک تو ٹیکس نہ دے اور دوسرے حقِ حکومت بھی اسی کے پاس رہے۔ عوام بھوک اور بیماری کے نرغے میں بھی رہیں اور فرقہ واریت اور لسانیت پرستی کی آگ میں بھی جلیں۔ پیپلز پارٹی نے سوشلزم کے نعرے سے ابتدا کی اور بحرانوں سے ہوتی ہوئی جاگیردار طبقے کے مفادات کی امین بن گئی۔ مسلم لیگ ن نے آمریت کی گود میں پرورش پائی اور سرمایہ داروں کی ترجمان بن گئی۔ تحریک انصاف وہ سب کام کررہی ہے جسے اشرافیہ کو فائدہ پہنچے لیکن اصرار یہ ہے کہ این آر او نہیں دینا۔ ایسا بھی نہیں کرتی کہ صلح کرلے۔ عوام کو چھوڑیں ، ملکی بقا اور خود مختار ی کی خاطر۔ معیشت کی اصلاح کرکے اسے اپنے پاوں پر کھڑا کریں، سیاست سے نفاق کا کانٹا نکال پھینکیں، جرائم کی روک تھام کے لیے برطانوی عہد ضابطہ فوجداری میں تبدیلی لائیں۔ جرائم کی روک تھام کے لیے تعزیراتِ ہند میں صلح کرلیں۔ لیکن صلح تو کرنی ہی نہیں ہے۔ تضادات کا کھیل ختم ہوگیا تو یہی ثابت ہوگا کہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ یعنی ایک ہی پارٹی مختلف ناموں سے اقتدار میں ہے۔ اشرافیہ کی سیاست کو طبقاتی تناظر میں کامیاب کہا جاسکتا ہے۔ حیلے بہانوں سے اس نے عوام کے جم غفیر کو اپنے پنجوں میں مضوطی سے جکڑا ہوا ہے۔ طاقت کے توازن پر یقین بھی اپنی حد تک کامیاب ہے کہ اندرونی طور پر کسی بڑی شورش کا خطرہ نہیں۔ تضادات پیدا کیے جاتے ہیں لیکن انہیں ایک حد میں رکھنے کا بھی انتظام ہے۔ مشرقی سرحدوں پر باڑ لگی ہے، مغربی سرحدوں پر ہونے والی فرقہ ورانہ اور نسلی شورش سے نمٹنے کے لیے فوج موجود ہے۔ اشرافیائی سیاسی پارٹیوں کا کام ایک ہی ہے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ قرضوں کی معاہدے کریں اور ان کی شرائط پر آنکھیں بند کر کے دستخظ کردیں۔ معیشت کی نبض چلتی رہے اور بس۔ طبقاتی مفادات کے لیے اتنی قربانی تو بنتی ہے! حالات کی ستم ظریفی ملا حظہ ہو کہ جمہوریت کی بحالی کے تیرہ سال بعد بھی سیاست نو آبادیاتی مزاج سے باہر نہیں آرہی۔ ٹیکسوں کے نظام سے ضابطہ فوجداری تک وہی سوچ کار فرما ہے۔ جمہوریت کی ریوڑیاں بھی آپس میں بانٹی جارہی ہیں۔ آئین مقامی حکومتوں کا کہتا ہے لیکن کس کو پرواہ ہے۔ عدالت کے اصرار پر اتنا ہی ہوا ہے کہ ایک لنگڑا لولا نظام عوام کے منہ پر دے مارا ہے۔ تبدیلی سرکار ٹیکسوں ، ضابطہ فوجداری اور مقامی حکومتوں کے سوال پر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے تین سال بعد کہہ رہی ہے کہ اصل مسئلہ انتخابات کاطریقہ کار ہے۔ لیکن جو نسخہ وہ تجویز کر رہی ہے اسکی قیمت تین سو ارب روپے ہے۔ قانون پاس ہوگیا ہے لیکن اپوزیشن پہلے ہی کہہ رہی ہے کہ اس طریقے سے ہوئے انتخابات کو وہ سرے سے تسلیم ہی نہیں کرے گی۔ مطلب سیاسی مباحثے میں ایک نیا تضاد، سیاست میں صلح جوئی ڈھونڈے والے تجزیہ کاروں میں قنوطیت کی ایک اور وجہ ، مبارک ہو!