پچھلے دنوں عدلیہ میں چلنے والے کیسز کے حوالے سے مختلف چیزیں دیکھتے، پڑھتے ہوئے سوچا کہ 1997میں تب کے وزیراعظم نواز شریف اور تب چیف جسٹس سجادعلی شاہ کے درمیان تنازع کا جائزہ لیا جائے۔ انٹرنیٹ پر ایک انگریزی اخبار کاپرانا ریکارڈ( آرکائیو) مل گیا۔ یہ بحران جولائی اگست 97سے شروع ہوا، جبکہ اس کی شدت اکتوبر کے آخری ہفتے میں بڑھ گئی، دو نومبر کو ڈراپ سین ہوگیا تھا۔ ان چند ماہ کی خبروں کو پڑھتا رہا، بڑی حیرت ہوئی ۔ یوں لگا جیسے فروری 2023 سے اپریل 23 تک جو کچھ ہوا، وہ چھبیس سال پرانے واقعات کی فلمی ریل ہے۔وہی سب کچھ جو ستانوے میں میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے عدلیہ کے خلاف کیا تھا، وہی اب کیا جا رہا ہے۔مسلم لیگ ن کے اپنے حامیوں میں سے بعض ناقدین یہ کہتے ہیں شریف خاندان ابھی تک نوے کے عشرے میں جی رہا ہے اور اسی انداز کی سیاست کر تا ہے۔ جس کسی کو اس فقرے میں شک ہو، میرا دعویٰ ہے کہ وہ کسی لائبریری میں جا کر اخبارات کے پرانے ریکارڈز سے اگست سے دو دسمبر 1997 تک کے واقعات پڑھ لے اور پھر آج کے حالات پر نظر ڈالے، اس کا رواں رواں پکار اٹھے گا کہ یہ ری پلے (Replay) ہے۔ مثال کے طور پر ستانوے میں جھگڑا اسی بات پر شروع ہوا کہ حکومت کو آئین کی پابندی کرنی چاہیے اور کوئی ایسا غیر آئینی قانون نہ بنائے جس سے بنیادی حقوق متاثر ہوں ۔عدالت نے جب یہ کہا تو نواز شریف صاحب نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور توہین آمیز کمنٹس دئیے ۔ عدالت نے جب توہین عدالت کی کارروائی شروع کی تو یہ گھبرا گئے۔ پھر یکے بعد دیگر ے مختلف حربے آزمائے جاتے رہے ،کبھی منت ترلا، کبھی دھمکی ، کبھی پارلیمنٹ کا کارڈ کھیلنا۔ میڈیا میں عدلیہ اور چیف جسٹس کے خلاف خبریں، کالم لگوانا۔ نیوزچینل(تب پی ٹی وی ہی واحد چینل تھا)کو عدلیہ کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے استعمال کرنا۔ آئے روز وفاقی وزرا کا آ کر پریس کانفرنس کرنا اور عجیب وغریب دلائل پیش کرنا، جھوٹے دعوے کرنا۔تب صدر مملکت فاروق احمد لغاری تھے۔ نواز شریف حکومت ان کے بھی خلاف ہوگئی کہ صدر لغاری عدلیہ کے خلاف مہم میں ہمارے ساتھ کیوں کھڑے نہیں ہوئے۔ صدر کے خلاف بھی ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ حملے چلتے رہے۔ حتیٰ کہ صدر کے مواخذہ کی بھی دھمکی دی گئی ۔ سب سے بڑھ کریہ کہ97میں سپریم کورٹ میں تقسیم پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اپنے حامی وکلا رہنمائوں اور کارکنوں کے ذریعے عدالت کے باہر شورشرابا ، ہنگامہ آرائی۔اکرم شیخ تب سپریم کورٹ بار کے صدر تھے اور وہ چیف جسٹس کے موقف کی حمایت کر رہے تھے، عدالت میں ایک ن لیگی وکیل نے شیخ کے ناک پر مکہ دے مارا۔اس سب کی انتہا تب ہوئی جب اٹھائیس اکتوبر کو لاہور سے مسلم لیگی کارکنوں کی بسیں منگوا کر سپریم کورٹ کی بلڈنگ پر حملہ کرا دیا گیا۔ اس حملے کی قیادت لاہور سے ن لیگی ارکان قومی اسمبلی میاں منیر، طارق عزیز اور رکن صوبائی اسمبلی اختررسول کر رہے تھے۔ یہ سب بعد میں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل بھی ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے اختیارات کم کرنے کی کوشش میں پارلیمنٹ سے ایک بل منظور کرا لینا ۔ جس کے تحت توہین عدالت کیس میں سزا ملنے کے بعد اپیل کا حق ہوگا اور سزا سنانے والے ججوں کے سوا باقی سپریم کورٹ اسے سنے گی۔ یہ ایسا بل تھا جس کا واحد مقصد نواز شریف کو بچانا تھا، ورنہ توہین عدالت کے کسی ملزم سے پارلیمنٹ کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے کہ اس کے لئے آئوٹ آف دا وے جا کر قانون سازی کی جائے اور ایسی اپیل کی اجازت ملے جسے فل کورٹ سنے ۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ اس بل پر عدالت عظمیٰ نے اعتراض کیا اور عملدرآمد روک دیا تو اس پر بھی ہنگامے کئے جاتے رہے کہ دیکھیں عدالت پارلیمنٹ کے کام میں دخل دے رہی ہے۔ پارلیمنٹ مقدس ہے، بالاتر ہے، سپریم ہے وغیرہ وغیرہ کے گیت اور اس حوالے سے وزرا کاہرروز نت نئے اقوال زریں سنانا۔ گویا دنیا میں صرف پارلیمنٹ ہی مقدس ہے اور باقی سب اس کے طفیلی اور باج گزار ہیں، پارلیمنٹ جب جی چاہے بدنیتی کی بنیاد پر قانون پاس کر لے ، جب چاہے آئینی اداروں کے اختیارات سلب کر لے؟ چھبیس سال پرانے ان واقعات پر نظر ڈالیںاور آج کے حالات دیکھیں تو حیران کن مماثلت نظر آئے گی۔ ایک ہی سکرپٹ ہے جسے معمولی سے ردوبدل کے بعد پھر فلمایا جا رہا ہے۔ یہ اور بات کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام سمجھدار اورباشعور ہوگئے ہیں، اس لئے یہ ڈبہ فلم ثابت ہو رہی ہے۔ ن لیگیوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ 1997نہیں، بلکہ 2023ہے۔ کئی چیزیں بدل چکی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ تب ایک ہی چینل پی ٹی وی تھا، سرکاری چینل۔ حکومت جو چاہتی وہی نشر ہوتا۔ آج درجنوں چینل ہیں اوربعض اہم میڈیا ہائوسز حکومتی کنٹرول سے باہر ہیں۔ ویسے بھی پرائیویٹ چینلز عوام کے موڈ اوررائے کو نظرانداز نہیں کر سکتے، ورنہ انہیں کوئی نہیں دیکھے گا۔ دوسرا بڑا فرق سوشل میڈیا ہے۔ کروڑوں لوگوں کے ہاتھوں میں ان کا اپنا میڈیا پلیٹ فارم ہے، فیس بک، ٹوئٹر ، واٹس ایپ کی شکل میں۔ وہ جو جی چاہتے ہیں لکھ ڈالتے ہیں، وائس میسج بنا کر بھیج دیتے ہیں۔ حکومت کا ان تینوں سوشل میڈیا ایپس پر کوئی کنٹرول نہیں۔ آج کسی جلسے کا بلیک آئوٹ کرانے سے اس کی خبرنہیں رک سکتی ۔ فیس بک لائیو، یوٹیوب اور واٹس ایپ ، ٹوئٹر پر ویڈیوز کی صورت میں چند منٹوں میں کروڑوں لوگوں تک ہر اطلاع پہنچ جاتی ۔ تیسرا بڑا فرق یہ تھا کہ وزیراعظم نواز شریف تب صرف چند ماہ پہلے الیکشن جیت کر دو تہائی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ میاں صاحب کی اپنی پارٹی میں مقبولیت تھی اور عوامی حلقے بھی ان کے خلاف نہیں ہوئے تھے۔ ان کی حکومت کو آئے کم عرصہ ہوا تھا، اتنا جلد نیا الیکشن کرانے یا حکومت ختم ہونے کی کسی کو توقع تھی اور نہ ہی خواہش۔ آج پی ڈی ایم حکومت کو ایک سال ہوا ہے، مگر اس عرصے میں یہ خوفناک حد تک غیر مقبول ہوچکی ہے، ہر پول میں یہ انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔حکومتی اتحاد چند ماہ میں ہونے والے سینتیس ضمنی الیکشن میں سے یہ تیس ہار چکا ہے۔ شکست کا تناسب اکیاسی فیصد بنتاہے۔ پی ڈی ایم میں فرسٹریشن اس قدر زیادہ ہے کہ اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی اگلے ضمنی الیکشن میں حصہ نہیں لینا تاکہ مسلسل شکست کی خفت اور خجالت سے بچ سکیں۔پھر موجودہ پارلیمنٹ کی مدت بھی ختم ہو رہی ہے، صرف چار ماہ رہ گئے۔ اس کے بعد الیکشن ہی ہونے ہیں۔ اس لئے پارلیمنٹ کی مدت یا موجودہ حکومت کا رہنا عوام کا ایشو نہیں۔ وہ اس پارلیمنٹ اور حکومت سے مکمل لاتعلق اور منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ چوتھا بڑا فرق اپوزیشن کا ہے۔ تب پیپلزپارٹی اپوزیشن میں تھی، محترمہ بے نظیر بھٹوصدر فاروق لغاری سے سخت ناراض تھیں کہ انہوں نے بے نظیر اسمبلی توڑ دی تھی، جبکہ اس فیصلے کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے درست قرار دیا تھا۔ اس لئے پیپلزپارٹی اگرچہ میاں نواز شریف کی مخالف تھی، مگر اسے صدر اور چیف جسٹس سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ آج ملک کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے۔ مختلف پول رپورٹس کے مطابق اگر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوئے تو پنجاب اور کے پی میں یہ دو تہائی اکثریت بھی لے سکتی ہے۔ صدر کا تعلق تو ہے ہی تحریک انصاف سے ہے۔ عدلیہ کے بارے میں بھی تحریک انصاف کو اگرچہ سال پہلے تحفظات تھے جب انہی چیف جسٹس نے عمران خان کی تحلیل شدہ اسمبلی بحال کی، مگر تحریک انصاف جانتی ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ کی آہنی فصیل بھی مسمار ہوگئی تو پی ڈی ایم حکومت کے جبر اور استبداد کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اس لئے اپوزیشن کی عوامی قوت اور اخلاقی ہمدردی عدالتوں کے ساتھ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ بار کی نئی قیادت بھی عدلیہ کے ساتھ اور حکومت کے خلاف کھڑی ہے، پچھلی قیادت کا رویہ الٹ تھا۔وکلا تنظیموں کا مجموعی رویہ پی ڈی ایم حکومت کے ناروا اور غیر جمہوری سٹانس کے خلاف ہے۔ یہ تمام فیکٹرز بتا رہے کہ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ستانوے کی سیاہ تاریخ دہرائی نہیں جا سکتی۔ افسوس کہ مسلم لیگ ن ، اس کی قیادت اور ان کے حامی لکھاری، تجزیہ کاروں کو یہ سامنے کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔ یہی بات پیپلزپارٹی، بلوچ پشتون قوم پرستوں اور مولانا فضل الرحمن کے لئے کہی جا سکتی ہے۔ افسوس کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔