یروشلم سے گولان کی پہاڑیوں تک کا سفر، لگ بھگ تین گھنٹے کا ہے۔ آدمی ٹھیکیاں لیتا ہوا چلے، تو ظاہر ہے کہ تین کو چار بنتے، کیا دیر لگتی ہے؟ یروشلم کا نان "یروشلم بیگل"، یہاں کا مشہور کھاجا ہے۔ یہ نان، سڑک کے کنارے، جگہ جگہ بکتا نظر آیا۔ اسے کھانے کا صحیح لطف تب اْٹھتا ہے، جب زیت ِزیتون یعنی آلِو آئیل اور زعتر کے لگاون ساتھ ہوں۔ تِلوں سے بھرا یہ نان خریدیے اور زعتر کا پْڑا ساتھ مفت لیجیے۔ زعتر بڑا ہی خوش مزہ مْرکب ہے دھنیے اور کچھ مصالحوں کا۔ ہم اہتمام سے ایک تنور پر گئے جہاں گرم گرم نان اْتر رہے تھے۔ زیتون کے تیل میں زعتر بْرک کر، نان کا نیم گرم ٹکڑا ڈبویا اور منہ میں جیسے ہی رکھا، گھْل کر رہ گیا۔ سبحان اللہ! زبان پر اس کا لطف، آج تک ہے۔ یہی نان توڑتے اور ٹھونگتے، ہم ساڑھے تین چار گھنٹوں میں، گولان کے علاقے میں داخل ہوئے۔ گولان کی پہاڑیاں انیس سو سڑسٹھ سے اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔ یہ وہی جنگ ہے، جس میں اسرائیل نے اْردن، مصر اور شام، تینوں سے اتنے علاقے چھین لیے تھے کہ بعد میں، ان میں سے کچھ، صرف واسطے واپس کر دیے کہ ذرا سی آبادی کے ساتھ، اتنے بڑے علاقے پر قابض رہنا، مصلحت کے خلاف ہے۔ گولان کی تزویراتی اہمیت اتنی ہے کہ ترپن سال پہلے کا جھگڑا آج تک چْکایا نہیں جا سکا۔ ہاں! اب پہلی بار، بغیر کسی ایچ پیچ کے، اور مْگھم یا مبہم انداز اختیار کیے بغیر، اس قبضے کو، امریکا کی باقاعدہ حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ اس کا صلہ یہ ہے کہ ایک بستی، ٹرمپ ہائٹس کے نام سے بسائی جا رہی ہے ع قاتل اگر رقیب ہے، تو تم گواہ ہو! یہ بات پہلے بھی لکھی جا چکی ہے کہ اسرائیل کی ساری ترقیوں کے باوجود، یہاں کی فضا، ہزاروں سال پْرانی ہے۔ اسی کی مثال، گولان کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ تصور کیجیے کہ دو دشمن ہمسایوں کے بیچ، ایک نہایت اونچا مچان بنا ہوا ہو۔ اس مچان پر جس کا بھی قبضہ ہو گیا، وہ دوسرے کے قریب پھٹکتے ہی، چڑھ دوڑے گا۔ ان پہاڑیوں میں سے بیشتر، عام لوگوں کے لیے، کھْلی نہیں ہیں۔ البتہ ایک پہاڑی تک، سیاحوں کی رسائی کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہاں جب ہم داخل ہوئے ہیں، اور گاڑی آگے بڑھائی ہے، تو میں چونکہ اسلام آبادی ہوں، ذہن میں دامن ِکوہ آ گیا۔ ویسا ہی چکر دار راستہ۔ پہاڑی کی چوٹی تک مسافت بھی لگ بھگ اتنی ہی۔ چند منٹ میں، ہم چوٹی پر پہنچ چْکے تھے۔ تیس پینتیس گاڑیاں پہلے سے یہاں موجود تھیں۔ پارکنگ کے لیے مخصوص جگہ پر، گنجائش بھی اتنی ہی تھی۔ ایک عجیب تجربہ یہ ہوا کہ نیچے تو ٹٹار دھوپ تھی اور یہاں، چوٹی پر، بادل چھائے ہوئے تھے۔ خاصے فاصلے پر، ایسے پہاڑ بھی نظر آئے جو پْورے کے پْورے برف سے ڈھکے دکھائی دیے۔ یہ پہاڑ بھی، گولان ہی کے سلسلے کے ہیں۔ اس دلکش منظر کو دیکھتے دیکھتے، گاڑی کا دروازہ کھولا۔ ابھی پائوں باہر نکالا ہی تھا کہ اتنی تْند اور سرد ہوا آ لگی کہ ساری دل کشی کافور ہو گئی۔ ہوا کے وہ تیز جھکڑ کہ ع پائوں رکھتے تھے کہیں، اَور کہیں پڑتا تھا آدمی چلے تو بس جھکولے کھاتا ہوا ہی چلے۔ ایسے " دو چار سخت مقام" جب بھی پیش آتے ہیں، ہر سگریٹ نوش کو، سب سے پہلے سگریٹ کی سوجھتی ہے۔ گویا ع ا"دَم" رہا جب تک کہ دَم میں دَم رہا میرے ڈرائیور عبدالکریم نے بھی جھٹ سگریٹ سلگایا اور باہر نکل آیا۔ میں نے دل میں سوچا۔ افسردگی ِسوختہ جاناں، ہے قہر میر! دامن کو ٹْک ہلا! کہ بجھی ہے دلوں کی آگ اس سارے سفر کے، کہنا چاہیے کہ پیسے وصول ہو گئے، دْور فاصلے پر، جب دمشق کی آبادی نظر آئی۔ یقین ہے کہ یہاں فیصلہ کْن جنگ جب بھی ہوئی، جدید ہتھیاروں سے نہیں ہو گی۔ جنگ ہوئی تو قدیم جنگی حربوں سے ہو گی۔ جس نے قبضہ ان پہاڑیوں پر کر لیا، میدان اسی کے ہاتھ رہے گا۔ پہاڑی سے اْترتے میں، ذکر چھڑا "سی آف گیلیلی" کا۔ میں جب پہلی بار یہاں آیا تھا تو عبداللہ طارق سہیل صاحب کی یہ تاکید ہمراہ تھی کہ فْلاں، فْلاں اور فْلاں مقامات ضرور دیکھنا۔ اس مرتبہ بھی، انہیں فون کر کے چلا تھا۔ سہیل صاحب اس خطے کے جغرافیے اور اس کی تاریخ سے اتنے واقف ہیں کہ میں یہاں آ کر بھی نہیں ہو پایا۔ اس دفعہ انہوں نے گیلیلی کے سمندر کو دیکھنے پر زور دیا تھا۔ یہ سمندر، قْرب ِقیامت کی نشانیوں کا حصہ ہے۔ اس کی بابت آیا ہے کہ جْوں جوْں قیامت قریب آتی جائے گی، وْوں وْوں اس کا پانی گھٹتا جائے گا۔ جب یہ سْوکھ گیا، تو سمجھو کہ آخری دَور، سر پر آ کھڑا ہے۔ یاجوج ماجوج کے بے قید ہونے کا حال جو سْنا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ یہ پیاسے بھْک مرے، سمندروں تک کو سْڑَک جائیں گے۔ کیا عجب کہ گیلیلی کی خْشکی بھی انہی سے پیدا ہونی ہو۔ یہ سمندر، پہاڑی سلسلے سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ زیادہ گہرا تو نہیں، مگر اتنا اتھلا بھی نہیں کہ سْوکھنے کے نزدیک ہو۔ اس کے کنارے، ایک ریسٹورینٹ سیاحوں سے آباد دکھائی دیا۔ چندے گاڑی یہاں ٹھہرائی کہ سفر نے بھْوک چمکا دی تھی۔ اظہر سہیل مرحوم نے کہیں لکھا ہے کہ لاہوری اپنی قبر، زبان سے کھودتے ہیں۔ اس میں اشارہ، ان کی خوش خوراکی اور فقرے بازی، دونوں کی طرف ہے! کیا کہنے ہیں لاہوریوں کے۔ چٹورے لاہوری، ذائقے کے مارے، خْدا جانے کتنی بلائیں ٹھکانے لگا چکے ہیں! کھا کر بھی اور اْگل کر بھی! چٹورپن دلی والوں پر بھی ختم تھا۔ انہی کا محاورہ ہے ایک آنت چلے، ستر بلا ٹلے! لیکن کھانا جس اہتمام سے اہل ِعرب کھاتے ہیں، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ فلسطینی دسترخوان کی تفصیل پھر کبھی۔ اگلی قسط میں غزہ چلیں گے۔ جو گفتنی ہے "درج ِگزٹ" کر دیا جائے گا اور ناگفتنی بھی... کبھی سْن ہی لیجیے گا۔ ان سفروں کے بعد جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے آپ بندہ نواز کیا جانیں!