استاد غالبؔکی بات دوسری ہے کہ ان کے لیے قفس بھی ایک آرام دہ جگہ تھی ظاہر ہے یہ اندازِ فکر ہر کسی کا نہیں ہو سکتا ۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ آرام ، سکون اور خوشی کشید کرنے کے لیے ہمیں شاید کوئی بہت زیادہ سہولتوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔مثلاً آجکل کے دنوں میںکسی روز آپ گھر پہ ہوں اور آپ کے صحن یا چھت پہ کہیں روپہلی دھوپ کی نعمت میسر ہو تو یہ کام ہو سکتا ہے ۔طریقہ کار یہ ہے کہ دھوپ کے عین درمیان آپ نے ایک چارپائی بچھانی ہے ۔ ایک نرم سا تکیہ اور دو چادریں لینی ہیں جن میں ایک بچھا لیں اور دوسری ، چارپائی پہ لیٹتے ہوئے ، اوپر لے لیں ۔ آپ صرف یہی کرکے لیٹ جائیں اور بس ! باقی کام دھوپ کرے گی ۔ یقین کریں تھوڑی دیر بعد آپ کو لگے گا جیسے بہت ہی کوئی مشّاق ہاتھ آپ کے جسم پہ مساج کر رہے ہیں ۔ایسی مسحور کُن ٹکور ہوگی کہ آپ غنودگی میں ڈوبتے چلے جائیں گے ۔ اس عمل کے بھرپور فوائد لینے کے لیے ضروری ہے کہ اس دوران تفکرات اور شریک حیات آپ کے قریب نہ آنے پائیں۔بلکہ اس دوران آس پاس کہیں Dont disturb me ‘ کا ایک ایسا بورڈ لگا لیں جو صرف محسوس ہو اور نظر نہ آئے ۔ ا س مدہوش کُن کیفیت میں آپ نے اگر دیڑھ دو گھنٹے گزار لیے تو اگلے کئی روز تک صرف اس کا تصور بھی آپ کو مسرور کرنے کے لیے کافی ہوگا۔ طبی اور نفسیاتی ماہرین اس عمل کے فوائد آپ کو کماحقہ نہیں بتا سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عمل پریکٹس مانگتا ہے اور اس کے لیے اِن ماہرین کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔اس طرح کا آرام اور اُس کے فوائد ہم نے اپنے بچپن میں بہت دیکھے ۔ ہم نے دیکھا کہ اُس وقت کے ادھیڑ عمر اور بزرگ افراد میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ گرمیوں کی طویل دوپہروں میں گھنے درختوں کی چھائوں میں روزانہ کوئی تین سے چار گھنٹے آرام کرتے تھے ۔ اور پھر سردیوں کی چمکدار دھوپ میں یہ عمل اپنے گھر کے کشادہ صحنوں میں دہراتے تھے۔ یقین کریں ان میں کوئی بزرگ زندگی کی آٹھ نو دہائیاں بھرپور طریقے سے ’ ہنڈائے ‘ بغیر دنیا سے رخصت نہیں ہوا ۔ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ زندگی میں کتنا کام کرنا چاہیئے ۔۔ کس قدر محنت کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے مجھے یہاں وہ آسٹریلین نرس Bronnie Ware یاد آرہی ہے جس نے The Top Five Regrets of the Dying" " نامی ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی ۔ اس کی ڈیوٹی ایک ایسے سینیٹوریم میں لگائی جاتی ہے جہاں اُن شدیدبیمار اور لاعلاج مریضوں کو رکھا جاتا ہے جن کی موت مستقبل قریب میں متوقع ہوتی ہے ۔ وہ نرس یہاں اپنی مُشکل ڈیوٹی کا ایک مثبت استعمال کرتی ہے اور ان قریب المرگ افراد کے وہ پچھتاوے نوٹ کرتی ہے جو انہیں اس سٹیج پر یاد آتے ہیں ۔ ان میں سے وہ پانچ ایسے پچھتاوے لیتی ہے جو کافی حد تک اُن سب میں مشترک ہوتے ہیں ۔ یہاں اس خاتون اور اس کی کتاب کا حوالہ دینے کا مقصد یہ ہے کہ موت کو سامنے دیکھنے والے ان افراد کے اُن پانچ پچھتاووں میں سے ایک اہم پچھتاوا یہ ہوتا ہے کہ ’’ کاش ہم نے زندگی میں اتنی محنت نہ کی ہوتی ‘‘ ۔ ذرا غور سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ فطرت بھی شاید اسی انداز فکر کو سپورٹ کرتی ہے کہ زندگی میں محنت و مشقت بھی ایک حد تک کرنی چاہیئے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورج کا غروب ہونا بھی ایک طرح سے اللہ کریم کی طرف سے گویا ایک اشارہ ہوتا ہے کہ اس کا بندہ سارے دن کی دوڑ دھوپ کے بعد اب کچھ آرام کر لے ۔یہی کام بچپن میں ہماری مائیں بھی کرتی تھیں جب بچے رات ہونے پر بھی شرارتیں جاری رکھتے یا کوئی بچہ دیر تک پڑھتا رہتا تو ایسے میں وہ آہستہ سے آکر چراغ گُل کر دیتیں کہ اب آرام کا وقت ہے ۔ میرے کئی جاننے والے زندگی میں اندھا دھُند محنت اور بے تحاشا کام کر رہے ہیں ۔۔ میں دیکھتا ہوں اُن کی زندگی میں سب کُچھ ہے سوائے آرام کے !’ بدقسمتی‘ سے ان میں سے چند ایک میرے قریبی دوست بھی ہیں ۔ یقین کریں مجھے اُن کا طرزِ زندگی دیکھ کے وحشت ہوتی ہے ۔ان میں سے بھی گئے گزرے وہ ہیں جو محنتی اور بے حد دولتمند ہونے کے ساتھ ساتھ بے مثال کنجوس بھی ہیں ۔اُن کی امارت کا کوئی اثر اُن کی شخصیت پہ نظر نہیں آتا ۔ مشین کی طرح کئی سال کام کرنے کے بعد بے پناہ دولت کے حصول کے ساتھ اگر بندہ طبعاً بخیل بھی ہو تو یہ انتہائی lethal combination بنتا ہے ۔ اور اس ’حسین امتزاج‘ کا بدترین شکار یہ لوگ خود ہی ہوتے ہیں ۔ مثلاً ان میں سے دو تین لوگ ایسے ہیں جو بینکوں میں ان گنت دولت ہونے کے باوجود آج تک اپنے لیے کوئی گاڑی نہیں لے سکے۔دسمبر کی کسی ٹھٹھرتی شام جب وہ اپنے ’ بائیک ‘ پہ مجھے ملنے آتے ہیں تو اُن کے برفیلے ہاتھوں سے مصافحہ کرنا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ میں اگر عرض کرتا ہوں کہ بھئی ! کوئی چھوٹی موٹی گاڑی لے لو ۔ تو کہتے ہیں ، ’’ جناب ! اس سے بہتر نہیں کہ وہ پندرہ بیس لاکھ ہم کاروبار میں لگا کر اسے اور بڑھائیں ۔ میں اُن کے اس دانشمندانہ جواب پہ صرف اپنے ہاتھ سہلاتا رہ جاتا ہوں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان معروضات کو پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے اوقات کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیئے جو احباب دفتری اوقات کے دوران اپنے کام سے جی چُرا کے آرام پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ بلا شُبہ فرائض کی بجآ وری میں بڑی غفلت کے مُرتکب ہوتے ہیں ۔ ان لمحات سے درست فائدہ اٹھانے والوں پر بے جا تنقید کریں تو اُن کی خدمت میں ہم حضرت داغ ؔ کا یہ لاجواب شعر پیش کر سکتے ہیں : لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں