حکومت نے ڈیل اور ڈھیل کا اتنا غل مچایا کہ اسی کے پیدا کردہ بحرانوں کے شور سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ شاید غل کا مقصد بھی یہی ہے اور ایسا ہے تو اعتراف کیجئے، حکومت ایک بار پھر ’’کامیاب‘‘ ہے۔ ڈیل اور ڈھیل نہ دینے کی لنترانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے ایک لیڈر نے کہا ہے کہ ایسے معاملات میں وزیراعظم کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور کیوں اتنا شور کر رہے ہیں۔ اپوزیشن ہی کے ایک اور لیڈر نے کہا ہے کہ پرائم منسٹر کو عوام پر مسلط کیا گیا ہے۔ عرض ہے کہ وزیراعظم کو شور مچانے کا اختیار تو ہے، پھر وہ کیوں اس اختیار کو استعمال نہ کریں۔ لیکن یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وزیراعظم کو شور مچانے کے سوا کوئی اختیار نہیں۔ درحقیقت بہت سے معاملات میں اگر انہیں بے اختیاری ہے تو کئی امور پر بااختیاری بھی ہے۔ مثلاً چھوٹے بڑے افسروں کو بلاناغہ تبادلوں کی بااختیاری، کابینہ میں توسیع کی بااختیاری۔ کراچی سمیت سارے سندھ میں کئی روز سے گیس بند ہے۔ کراچی سے ایک واقف کار نے رابطہ کیا اور کہا کہ دو تین روز سے کھانا باہر سے منگوا رہے ہیں یعنی ہوٹل سے، کتنے دن منگوائیں گے؟ اس الجھن کا ایک حل تو یہ ہے کہ تمدن کے اس دور میں واپس چلے جائیں جب چولہوں میں لکڑی جلائی جاتی تھی۔ لیکن اس حل میں مشکل بھی ہے۔ چھوٹے شہروں کے گردا گرد تو جنگل جھاڑ کا علاقہ ہوتا ہے۔ روز جائیں، ایک ڈھیری لکڑی کاٹ کر لے آئیں لیکن بڑے شہروں کا تو معاملہ ہی اور ہوگیا۔ جہاں آبادی کی بڑی اکثریت چھوٹے گھروں میں رہتی ہے۔ لکڑی جلانے والا چولہا لگانے کی جگہ ہے اور نہ لکڑی ذخیرہ کرنے کی اور اگر ہو بھی تو لکڑی لائیں گے کہاں سے؟ کراچی اکیلے کی آبادی اڑھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔ ٭٭٭٭٭ چولہے ٹھنڈے ہونے کا مطلب پہلے ایک تھا، اب دو ہو گئے۔ پہلے یہ مطلب تھا کہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے چولہا جلانے کے قابل ہی نہیں رہنے دیا۔ دوسرا مطلب اب یہ سامنے آیا ہے کہ جس کے پاس پیسے ہیں، آٹا بھی ہے دال بھی ہے لیکن چولہا اس کا بھی ٹھنڈا پڑا ہے۔ تاریخ میں یہ۔ اعزاز کم لوگوں کے حصے میں آیا ہے کہ وہ دونوں مطالب کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ دوسرے مطلب کے تو بانی ہی حکمران ہیں، پہلے مطلب کو انہوں نے چار چاند لگائے۔ ایک سیلز مین نے بتایا کہ جس ادارے میں بھی جائو، پتہ چلتا ہے اتنے سو یا اتنے ہزار (بقدر جثہ) ملازم نکال دیئے۔ محاورتاً نہیں، حقیقتاً لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ،لاکھوں ہورہے ہیں جس کی جیب خالی، اس کا چولہا بھی ٹھنڈا، جس کی گرم ہے، چولہا اس کا بھی ٹھنڈا۔ ٭٭٭٭٭ گیس کے اس بحران میں خان صاحب کو وزیر تیل گیس کی مدد بھی حاصل ہے۔ نام تو وزیر موصوف کا کچھ اور ہے لیکن چھ ماہ کی ’’مہلت عمل‘‘ میں ان کے ایسے وارے نیارے ہوئے ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے۔ جناب گزشتہ دنوں فرما چکے ہیں کہ گیس کے گیزر گھر میں رکھنا عیاشی ہے۔ عنقریب ان کی زبان مبارک سے شاید یہ ارشاد بھی صادر ہونے والا ہے کہ گیس کے چولہے رکھنا بھی عیاشی ہے۔ اسی دوران خبر آئی ہے کہ قطر نے گیس دینے سے انکار کردیا ہے۔ معاف کیجئے گا، ہمارے خان صاحب کے سامنے کس کی جرأت کہ انکار کر سکے، انکار نہیں، معذرت کی ہے، معذرت کے ساتھ۔ اب کیا کیا جائے؟ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ پختونخوا میں گیس کے اتنے ذخائر ہیں کہ آس پڑوس کے ملکوں میں کہیں بھی نہیں ہیں۔ یہ بات خود خان صاحب نے بتائی ہے۔ صادق و امین ہیں، غلط بات تو وہ بتا ہی نہیں سکتے۔ الیکشن سے کچھ ماہ پہلے کی بات ہے جب عام جلسے میں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ صوبے میں لوگ پانی کے لیے کنواں کھودتے ہیں تو گیس نکل آتی ہے۔ ہر تیسرے کنوئیں سے گیس نکلتی ہیں، لوگ پائپ لگاتے ہیں، گھروں میں گیس لے جاتے ہیں۔ واللہ، اتنی بے پناہ گیس تو قطر میں بھی نہیں ہے۔ وہاں ہر بیسویں کنوئیں سے گیس نکلتی ہے، یہاں ہر تیسرے سے۔ اب ان کنوئوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں آتی۔ شاید ڈھکن لگا کربند کردیئے۔ وقت آ گیا ہے کہ ان کنوئوں کی ڈھکن کشائی کردی جائے۔ کچھ یہاں استعمال کریں، کچھ تاجکستان کو ایکسپورٹ کردیں جو کب سے پائپ لائن بنانے کی باتیں کئے جا رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب سے اپوزیشن کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ خان صاحب کو علیم خان کی گرفتاری کا علم تھا، انہی کے کہنے پر ہوئی، وہ بزدار کے راستے کا ہر کانٹا صاف کرنا چاہتے ہیں، بھلے سے کانٹے کا نام علیم خان بھی کیوں نہ ہو۔ ایک اور اپوزیشن لیڈر کا تعلق کراچی سے ہے، انکشاف فرماتے ہیں کہ جلد ہی پختونخوا کے وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر دفاع بھی پکڑ لئے جائیں گے۔ یہ گرفتاری بھی حسب فرمائش ہو گی۔ وجہ چھ ماہ پرانی ہے۔ خان صاحب ایک ٹیلنٹڈ نوجوان کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ پرویز خٹک نے خواب پریشان کردیا، اب خواب کی تعبیر کا وقت آ گیا۔ واقعی؟