وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں یوریا کھاد اور آٹے کے بحران کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد کی ہے۔پارٹی رہنمائوں کے اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ سندھ حکومت نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔انہوں نے کراچی شہر میں سب سے زیادہ مہنگائی کی بات کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کنٹرول کرنا صوبوں کا اختیار ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے یوریا اور آٹے بحران کی ذمہ داری ایک صوبے پر عاید کرنا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔سندھ حکومت نے ان کے بیان سے اتفاق نہیں کیا۔سب سے پہلی بات یہ کہ وفاقی حکومت کے پاس وزارت خوراک و زراعت اور فوڈ سکیورٹی کی پوری انتظامی مشینری موجود ہے جو غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی بیشی سے قبل از وقت آگاہ ہو کر پالیسی سازی کرتی ہے۔طریقہ کار یہ ہے کہ تمام صوبے گندم کی پیداوار اور فصل کو پہنچنے والے نقصانات کی رپورٹ ہر سال 31مارچ کو نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ادارے کو جمع کراتے ہیں۔اس رپورٹ کی مدد سے گندم‘گنا یا دیگر اجناس کی قلت کا خدشہ سامنے آئے تو حکومت قبل از وقت احتیاطی تدابیر اپنا کر بحرانی صورت حال سے محفوظ رہنے کا چارہ کر لیتی ہے۔سن 2020ء کے دوران سندھ‘پنجاب اور بلوچستان کے کچھ مقامات پر ٹڈی دل کے حملے کی وجہ سے گندم کی فصل متاثر ہوئی۔پھر پنجاب میں فصل پکنے کے قریب تھی کہ بارش ہو گئیں۔حیرت ناک بات یہ کہ وفاقی حکومت اور صوبے ہر سال کے معمول کے مطابق سالانہ رپورٹ بروقت تیار نہ کر سکے۔اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔گزشتہ برس جب ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوا تو وزیر اعظم عمران خاں نے ایف آئی اے کو اس کی تحقیقات کا حکم دیا۔وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پنجاب‘کے پی کے اور سندھ کے محکمہ خوراک نے گندم کی طلب و رسد کے اعداد و شمار کو نظر انداز کیا۔وفاقی حکومت کے ادارے پاسکو نے حکومتی ہدف کے تحت گندم کی خریداری نہ کی۔رپورٹ میں ایف آئی اے نے آئندہ اس قسم کے بحرانوں سے بچنے کے لئے کچھ تجاویز پیش کی تھیں۔صوبائی حکومتوں کے گندم خریداری کے طریقہ کار‘طلب و رسد اور سٹاک کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجویز دی گئی تھی۔دیگر رپورٹس اور تجاویز کی طرح اس رپورٹ اور ایف آئی اے کی تجاویز کو بھی رات گئی بات گئی سمجھ کر بھلا دیا گیا۔نتیجہ یہ کہ گندم بحران پھر سامنے آ کھڑا ہے۔ بلا شبہ زراعت پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستّون ہے۔زراعت کا ملکی جی ڈی پی میں 19 فیصدحصہ ہے ۔ زراعت سے متعلقہ مصنوعات کا حجم ملکی آمدنی میں 80 فیصد تک ہے۔علاوہ ازیں زرعی شعبہ سے 42.3 فیصد آبادی کا روزگار وابستہ ہے-سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب گندم سمیت زرعی پیداوارکا سب سے بڑا حصہ فراہم کرتا ہے۔ کئی برسوں سے صوبہ پنجاب ملک میں جاری فوڈ سکیورٹی کے چیلنج سے نبرد آزماہے۔ پنجاب رقبے کے اعتبار سے دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 20.63 ملین ہیکٹر ہے جو کل ملکی اراضی کا 25.9 فیصد بنتا ہے۔صوبے کا72 فیصد رقبہ فصلوں کیلئے دستیاب ہے۔اس میں سے10.81 ملین ہیکٹر(53%)رقبہ پر بوائی کاکام ہوتا ہے؛ یہ وہ رقبہ جسے کم از کم سال میں ایک مرتبہ زیر کاشت لایا جاتا ہے۔8 فیصد اراضی کو ثقافتی متروکہ رقبہ کے طور پر نشان زد گردانا گیا ہے جس کا مطلب ہے یہ وہ رقبہ ہے جو تین سال سے زیادہ عرصے سے قابلِ کاشت نہیں ہوتا اوراسے کاشتہ رقبہ کا ہی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ کھاد کے نرخ اجناس کی پیداواری لاگت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔کسانوں کو کم نرخ پر کھاد کی فراہمی سے اجناس کی قیمتیں کم رکھنے میں مدد ملتی ہے ۔شماریات بیورو کے اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ ڈائی امونیم فاسفیٹ کی 50 کلو بوری کی قیمت 3848 روپے سے بڑھ کر6543 روپے تک جاپہنچی ہے اور اس میں 70.06 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ نائٹرو فاسفیٹ کی قیمت 2851 سے بڑھ کر 4280 روپے ہوگئی ہے اور اس میں 50.11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔نائٹرو فاسفیٹ پورٹ کی قیمت 2998 سے بڑھ کر 4416 روپے تک پہنچ گئی ہے اور اس میں 47.31 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایس ایس فاسفیٹ جی آر 18 کی قیمت 1147 سے بڑھ کر 1499 روپے ہوگئی اور اس میں 30.60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فاسفیٹ کے سلفیٹ کی قیمت 4252 سے بڑھ کر 5511 روپے ہوگئی اور اس میں 29.61 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سونا یوریا کی قیمت 1690 سے بڑھ کر 1813 روپے تک پہنچ گئی ہے اور اس میں 7.27 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کیلشیم امونیم نائٹریٹ کی قیمت 1546 سے بڑھ کر 1618 روپے تک جا پہنچی ہے اور اس میں 4.68 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گندم کے تخمینے ، صوبوں سے ہم آہنگی اور کھاد کی قیمتوں جیسے معاملات صرف صوبوں کی ذمہ داری نہیں مرکز کا کردار زیادہ اہم ہے۔اب تک جو رپورٹس سامنے آئی ہیں ان میں مرکز یا پنجاب حکومت کی کوتاہی عیاں ہے۔ صوبائی منافرت پر مبنی بیانات سے مسائل کم نہیں ہوں گے۔حکومت کنٹرول کا نام ہے ،بحرانوں کو ختم کرنے کے لئے یہ کنٹرول اب تک نظر نہیں آیا تاہم سندھ کی صوبائی حکومت سے بھی توقع ہے کہ وہ عوام کی زندگی آسان بنانے کے لئے وفاق کی شکایات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اپنے حصے کا کردار ادا کرے گی۔