کہیں دور سے مقتل میں کھڑے سید علی گیلانی کی درد میں ڈوبی صدا سنائی دیتی ہے۔وہی اقبالؔ کی درد بھری صدا۔ آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تردماغ ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر آزادکشمیر میں الیکشن کا اعلان ہو اچاہتا ہے۔ سری نگر کے نقطہ ء نظر سے بے معنی مگر پاکستانی سیاست پہ اثرات شاید گہرے ہوں۔ نون لیگ جیتی تو فتح نواز شریف کی ہوگی، جو فلسطین اور کشمیر سے یکسر بے نیاز ہیں۔ پی ٹی آئی ظفر مند ہوئی تو کشمیرکے خود ساختہ سفیر ظفر مند ہوں گے۔ مظلوموں کے حق میں جو کوئی ادنیٰ سی سفارتی مہم چلا نہ سکے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم کانفرنس بھی رزم گاہ میں ہوں گی۔ ممکن ہے کہ اقتدار کا توازن زرداری یا سردار عتیق کے ہاتھ میں ہو۔ خون آلود کشمیر کی خاطر نہیں بلکہ اپنے اندمال کا وہ اہتمام کریں گے۔ کل شب پی ٹی آئی کو امیدواروں کا اعلان کرنا تھا۔کچھ پرندوں کے انتظار میں رک گئی۔اور نون لیگ بھی۔ بیرسٹر سلطان محمود، سیف اللہ نیازی اور علی امین گنڈاپورپھندے بنائے پھر رہے ہیں۔نون لیگیوں کی حفاظت کے لیے محترمہ مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، فاروق حیدر، احسن اقبال اور کچھ دوسر ے رہنما متحرک ہیں۔ ایک اجلاس اسلام آباد میں ہو چکا۔ سردار عتیق عمران خان کے حلیف ہوں گے۔ سردار سکندر حیات ان سے آملے ہیں۔ مسلم کانفرنس کبھی آزادکشمیر کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کی جماعت، قائد اعظم جن پر شفقت فرمایا کرتے، سردار عبد القیوم خان ان کے جانشین ہوئے۔ کرشماتی آدمی خلق جس کی طرف کھنچی چلی آتی۔ شیخ عبد اللہ کی طرح اولاد کو جانشین کیا تو پارٹی ردعمل کے سیلاب میں بہہ گئی۔دو چار سیٹیں اب بھی جیت سکتی ہے۔سردار عتیق باغ اور سکندر حیا ت کے فرزند و برادر نکیال سے لڑیں گے۔ عتیق بہت سرگرم رہتے ہیں۔ سکندر حیات کا سرمایہ خاندانی توقیر ہے اور سیاسی حرکیات کا ادراک۔لطیفہ یہ ہے کہ عتیق عمران خاں اور بڑے میاں بیرسٹر کی طرف مائل ہیں۔ پیپلزپارٹی کو چوہدری عبد المجید نے دفن کر ڈالا۔ پہاڑ چہاڑ سے آدمی مگر چڑیا کا دل۔ جنابِ زرداری نے یہ خطہ اپنی ’’ادی‘‘ کو سونپ دیا تھا۔ مغلوں کے کسی صوبیدار کی طرح چوہدری عبد المجید خراج ادا کرتے رہے۔اس سیاسی پیکر کی کچھ ہڈیاں ہی باقی ہیں۔ حیاتِ نو کے لیے چوہدری لطیف اکبر نے شبانہ روز جدوجہد کی ہے۔ خلقِ خدا میں ہمہ وقت آسودہ، ایک ایک دروازے پر دستک کی توانائی۔زندہ شاید بچ نکلیں، اقتدار اب اس کے نصیب میں نہیں۔پنجاب، پلوچستان اور پختون خوا کی طرح جناب زرداری نے کشمیر کوبھی کھو دیا۔ زرو مال،زرو مال اور ٹائیں ٹائیں فش۔ کل 40نشستیں ہیں۔ 28آزاد کشمیر اور 12مہاجرین کی۔ نو پنجاب، دو کراچی اور ایک پختون خوا میں۔ سمندر پا ر پاکستانی آج بھی کپتان پہ فدا ہیں،ان کیلئے وہ قومی افتخار کی علامت ہیں۔ بیس فیصد کشمیری سمندر پار بستے ہیں اور ہر کشمیری پیدائشی سیاستدان۔گھنٹی بجتے ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جیسے ڈھول کی تھاپ پہ کوئی خٹک شمشیر بردار، رقص کناں۔سمندر پار کشمیری الیکشن پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ دھن دولت اور رسوخ سے کہ اپنے کنبے وہی پالتے ہیں۔ پنجاب کی اکثریتی سیٹیں ہمیشہ مرکز ی حکومت جیت لیا کرتی۔ نون لیگ جاگتی رہی تو اس بار یہ سہل نہ ہوگا کہ وسطی پنجاب میں نواز شریف مقبول ہیں۔ ہر چند بلوچستان اور گلگت بلتستان کی طرح کشمیری بھی اسلام آباد کے رخ پہ سیاسی عبادت کے قائل ہیں۔ سورج مکھی کی طرح سورج کا رخِ زیبا دیکھتے ہیں۔ نہ غرض کسی سے نہ واسطہ مجھے کام اپنے ہی کام سے ترے ذکر سے،تری فکر سے،تری یاد سے، ترے نام سے ایک ریوڑ کا ریوڑ نون لیگ سے پی ٹی آئی کا رخ کرے گا۔کارگر ٹیم بنائی ہوتی تو آدھی پارٹی جیت لیتے۔مر دم شناسی مگر خان کا وصف نہیں،بے چارہ علی امین گنڈاپور کیا کرے گا۔ فاروق حیدر آزاد کشمیر کی نئی نسل میں کبھی ہر دل عزیز تھے۔ آج بھی تاثر اچھا ہے مگر پہلے ایسا نہیں۔ کوئی بڑا سکینڈل تو نہیں مگر کچھ پلازوں کا ذکر ہونے لگا ہے۔ آزاد منش ہیں مگرہمہ وقت تصادم پہ آمادہ۔ بیعت کر لیں تو دل و جان ہار جاتے ہیں۔ نواز شریف کا بھارت نواز بیانیہ ان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ اسکے باوجود کشمیر کے پیکر پہ لگے زخموں کی تجارت میں وہ دوسروں سے زیادہ متحرک ہونگے۔ اس لیے کہ ذاتی سطح پر ان کی حبِ وطن پہ حرف کبھی نہیں آیا۔ لا ابالی ایسے کہ سبحان اللہ۔ ملاقات کیلئے کسی کو مدعو کریں اور وہ واسکٹ پہن رہا ہو تو اکثر پیغام یہ ملتاہے کہ وزیرِ اعظم کو ایک ہنگامی مصروفیت نے آلیا ہے۔ بے خبر بھی بہت،دو ماہ ہوتے ہیں، اس ناچیز سے کہا: اب بھی عمران خان کی وکالت آپ کیوں کرتے ہیں؟ عرض کیا: راجہ صاحب،اخبار پڑھا کیجیے۔ کبھی کبھار ٹی وی بھی دیکھ لیا کیجیے۔ آپکی معلوماتی صحت قدرے بہتر ہو جائیگی۔ انتخابی مہم سابق سے مختلف ہوگی کہ کرونا نے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ بڑے بڑے اجتماعات کی بجائے در در کی خاک چھانی جائیگی۔ ٹیلیفون، سوشل میڈیا اور برادریوں پہ انحصار زیادہ ہوگا۔ گجر، راجپوت، جاٹ اور سدھن، برادری آزاد کشمیر میں مذہبی مکتبِ فکر کی سی قوت رکھتی ہے۔روزنامہ جموں و کشمیر، کشمیر ٹائمز، روزنامہ دھرتی اور روزنامہ سیاست، مقامی اخبارات، قومی میڈیا سے زیادہ موثر ہیں۔ جو آرزومند ہو، ثمر سمیٹے گا۔ اب کی بار بھی نون لیگ کی طرف سے فاروق حیدر ہی وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد ہیں۔ پی ٹی آئی میں بیرسٹر سلطان محمود کامد مقابل ابھی تک کوئی نہیں۔ خوش اخلاق، خوش کردار اور باوسیلہ ذوالفقار عباسی پارٹی کا سرمایہ ہوتے۔ ڈھنگ کا آدمی مگر خان صاحب کو خوش نہیں آتا۔ گھبراہٹ میں مبتلا وزیرِ اعظم فاروق حیدر نے پچھلے دنوں ایک عظیم الشان غلطی کا ارتکاب کیا۔ گریڈ ایک سے چودہ تک کے سب عارضی ملازم مستقل کر دیے،خواہ ملازمت کے دو چار دن ہی بیتے ہوں۔ نوجوانوں میں اس پر شدید ردّعمل ہے کہ پبلک سروس کمیشن کو نظر انداز کیا۔ بے روزگاری کی سطح 14فیصد ہے او رآبادی میں نوجوانوں کا تناسب 65فیصد۔ الزام یہ بھی ہے کہ احتساب کمیشن کو آنجناب نے بے معنی بنا کر رکھ دیا؛چنانچہ پہلی سی اخلاقی برتری باقی نہ رہی۔ عشروں کی جدوجہد سے مالی خودمختاری کشمیر کو ملی تھی، ناروا اسے برتا۔ قوت عمل بہت مگر جذبات کے جوار بھاٹے میں جیتے ہیں۔ بعض کے بقول ’’ان پر جن پڑتا ہے‘‘نواز شریف کے بھارت نوازبیانیے کا بوجھ اٹھانا سہل نہیں اور کپتان نے کشمیریوں کے لیے کچھ کیا ہی نہیں۔ معرکہ انہی دو لشکروں کے درمیان ہوگا۔ جس قوم کی بنا جناح اور اقبالؔ ایسے پاکباز رہنمائوں نے رکھی تھی۔ آج اس کے لیڈر عمران خان اور نواز شریف ہیں۔ حتیٰ کہ جناب آصف علی زرداری بھی۔زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن۔ کہیں دورمقتل میں کھڑے سید علی گیلانی کی درد میں ڈوبی صدا سنائی دیتی ہے۔وہی اقبالؔ کی درد بھری صدا۔ آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تردماغ ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر