بالآخر وہ ماہ مقدس آن پہنچا جب آپ اپنی بداعمالیوں، کرتوتوں اور غلط کاریوں کا ذمہ دار ابلیس ملعون کو نہیں ٹھہرا سکیں گے اور آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ آپ خود ہی تھے جس نے اپنی اور دوسروں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی تھیں اس کا کام تو صرف شیرے میں لتھڑی انگلی دیوار پہ لگانا ہے۔یہ کام وہ فرض منصبی سمجھ کر انجام دیتا ہے۔ باقی کسر ہم عامی و خاکی ہی پوری کرتے ہیں۔ یوں بھی وہ تو آج تک اس غم سے نہیں نکلا کہ اسے جنت سے کیوں نکالا؟ کیوں نکالا مجھے؟بس یہی غم ہے جو کم نہیں ہوتا۔ کبھی جو منظور نظر تھا آج مردود دہر ہے۔ مسجود ملائک سر دربار تھا سو تھا مردود خلائق سر بازار ہوں سو ہوں خاکسار کا یہ شعر پسند آئے تو مکرر کے طور پہ دوبارہ پڑھ لیجیے۔نہ پسند آئے تو نصیحت کی طرح نظر انداز کردیجیے یا آگے بڑھا دیجیے۔ بقول مرشدی یوسفی، شعر سنایا ہے قبلہ ،گالی تو نہیں دی جو جواب دینا ضروری ہو۔شاعر کو اور بھی بہت سے کام ہیں اور بقول محترم خالد مسعود، وہ آپ کے والد صاحب کا نوکر نہیں ہے۔اس کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہے۔یوں بھی غریب کے پاس کبھی درباری قصیدہ گو کی ایک مستقل جاب ہوا کرتی تھی۔اس پہ بھی دانشوروں اور کالم نگاروں نے قبضہ کرلیا۔جو کام قافیے ۔ ردیف اور بحر میں وزن کے جھنجھٹ کے ساتھ ہوتا تھا اب نثر میں آسانی اور روانی کے ساتھ ہونے لگا ہے۔کبھی ساری ساری رات سر مار کے کوئی ایک شعر ہوا کرتا تھا۔ بہت تیر مارا تو قصیدے کا ایک بند ہوگیا۔ اس بند سے روزی کھولنا بھی جوئے شیر لانا تھا۔پھر قصیدہ گو بھی اسی حساب سے مل جاتے تھے جس حساب سے آج کل کالم نگار ملتے ہیں یعنی تھوک کے بھاو۔مقابلہ بازی کا رجحان تب بھی سخت ہی ہوتا تھا۔اب بھی سخت ہے بس کام آسان ہوگیا ہے۔اب پرائی زمینیوں میں قافیوں کی پنیریاں نہیں اگانی پڑتیں۔بس ایک لیپ ٹاپ کھولا،یہ نہ میسر ہوا تو ازاربندی اوزار قلم تو میسر ہوگا ہی کہ یہی کہنہ مشق نثری قصیدہ گو کالم نگاروں کا تیشہ فرہادی ہے جس سے وہ دودھیا نہر کھودی جاتی ہے جسے وہ تجزیہ کہتے ہیں ہوتا وہ قصیدہ ہی ہے۔ ممدوح کے درجات نثر میں بلند کئے اور مخالف کے اسی میں لتے لے لیے۔ہزار بارہ سو الفاظ میں آسانی سے کام ہوجاتا ہے ۔ بعض احدی کالم نگار تو بس پچھلے حکمران کا نام تبدیل کردیتے ہیں۔ان کا قصور نہیں ہے۔ روٹی کسی طور کما کھانے کا جنجال تو بھگتنا ہے۔ بھلے وہ مچھندر ہو یا چھچھوندر۔پیٹ سب کے ساتھ لگا ہے۔شاعر ہو یا کالم نگار۔اور پاپی پیٹ کا روزے سے گہرا تعلق ہے اور روزے میں وہ بند ہوجاتا ہے جس کو یہ غم نہیں بھولتا کہ اسے کیوں نکالا۔ ایک خاکی پتلے کی خاطر اسے کیوں نکالا۔اسے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ کمہار برتن پکاتا آگ میں ہی ہے لیکن گھڑتا مٹی سے ہی ہے۔ آگ میں برتن تپائے پکائے اور پختائے جاتے ہیں، بنائے نہیں جاتے۔ برتن مٹی سے ہی بنتے ہیں۔کھنکھناتے چپچپاتے حقیر گارے کی مٹی سے۔ خام برتن آگ میں نہ تپائے جائیں تو پختہ نہیں ہوتے ۔جلد تڑخ جاتے ہیں۔ سو مٹی اور آگ کا سنجوگ پرانا ہے۔ اس زعم میں آگ یہ سمجھے کہ برتن بنیں گے بھی اسی سے تو یہ اس کی خوش فہمی ہوسکتی ہے حقیقت نہیں۔ حقیقت تو بس مٹی ہی ہے۔ مٹھی بھر خاک۔ازل سے ابد تک ۔ خدائے لم یزل کے دربار سے قبر کے اندھیروں تک ۔کھرا سچ بس یہی ہے۔ابن آدم کا پیٹ بھرنے والی بھی یہی مٹی ہے۔ہوس کی آگ کو ٹھنڈا بھی یہی مٹی کرتی ہے۔یہی مشت خاک نادم ہوئی تو رب جلیل کی رحمت جوش میں آئی۔ربنا ظلمنا انفسنا۔اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پہ ظلم کیا۔ادھرمجسم آتش کو یہ اصرار کہ اسے کیوں نکالا؟اصرار ، سوال ، ڈھٹائی،زعم تقوی اورہٹ دھرمی محرم راز کو مردود خلائق کرگئی۔ندامت ، خاکساری،رضا اور تسلیم نے محبوب کردیا۔ عرق انفعال کے قطرے شان کریمی نے موتی سمجھ کے چن لیے۔یہ عرق انفعال کسی گہری تپسیا کا نتیجہ نہیں ہوتا محض ایک عاجزانہ اعتراف کی جرات درکار ہوتی ہے ۔ کہ میں کچھ نہیں جانتا۔مجھے علم نہیں۔مجھ سے قصور ہوگیا اب تو جانے تیری رحمت جانے۔ پاس ممتاز کے سر محشر اور کیا ہے بس اک ندامت ہے بس یہ ندامت ہی محبوب ہے۔یہی ندامت مطلوب ہے اور یہی مقصود بھی۔ میں نے زعم تقویٰ کا شکار عابد و زاہد دیکھے اور گناہوں میں غرق نادم و شرمسار بھی۔ان کا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے لیکن چشم نگراں پہ چشم گریاں اکثر بازی لے جاتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ اعتراف گناہ دنیا میں سزا اور آخرت میں جزا کا باعث بنتا ہے۔شاید یہی وہ خوف ہے جو اہل زمان کے سامنے اعتراف گناہ کی جرات چھین لیتا ہے۔خداوند رحیم و کریم کے دربار کے ضابطے مگر کچھ اور ہیں۔یہاں جتنی جلد اعتراف گناہ کرلیا جائے اتنی جلد خلاصی ممکن ہے۔تاریخ کا اصول بھی یہی ہے۔آخرخدا نے سچی کتاب میں عصر کی قسم یونہی تو نہیں کھائی۔کہا گیا کہ زمانے کو برا نہ کہو کہ زمانہ میں ہوں۔کجی کہیں خاک کے پتلے میں ہی ہے اس کی معراج مگر یہ ہے کہ وہ نادم ہوتا ہے۔قصور مانتا ہے اعتراف کرتا ہے اور دامن رحمت میں پناہ کا اہل ہوجاتا ہے۔ وہ جو آتش کے لپکے سے پیدا کیا گیا اس کا قصور بس ایک ہی تھا۔حکم کے مقابلے میں سوال۔فرمان کے مقابلے میں حجت اور قصور کے بعد ہٹ دھرمی۔پھر اس پہ یہ زعم کہ وہ دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔اسے فقط اللہ ہواللہ ہو اللہ ہو کرنے والے کے مقام کا ادرا ک ہی نہیں ہوتا۔ہم میں سے اکثر اس ابلیسی صفت کے مارے ہوئے ہیں۔فقط کھٹکنے کی خواہش میں وہ قصور کر ڈالتے ہیں جو کرنا نہیں چاہتے۔اس پہ زعم تقوی ہمیں ڈھٹائی کی ترغیب دیتا ہے اور آتش نفس ڈٹ جانے کا مشورہ دیتی ہے۔کاش انسان بڑے خسارے سے پہلے اعتراف گناہ کی عظمت کا ادراک کرلے۔یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔یہ کام ان کا ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد۔یہ صبر کا کام ہے۔خوش قسمتی سے ہم مسلمانوں کو ہر سال صبر کا ایک ماہ میسر ہے۔اس ماہ کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ اس کا ثواب اللہ رب العزت کے ذمے ہے۔ ہر عبادت کا ایک وقت متعین ہے۔روزہ دن بھر کی عبادت ہے۔ روزے دار کو دن میں کئی بار احساس ہوتا ہے کہ وہ روزے سے ہے۔ہر عبادت نظر آتی ہے۔سجدہ رکوع طواف سعی۔روزہ دکھائی نہیں دیتا۔ میں نے کہہ دیا میرا روزہ ہے تو آپ کو ماننا پڑے گا جب تک آپ مجھے کھاتا پیتا نہ دیکھ لیں لیکن آپ میری نگرانی نہیں کریں گے۔یہ وہ اخلاقی سبق ہے جو موٹیویشنل اسپیکر بھاری معاوضے لیکر پڑھاتے ہیں۔کہے پہ یقین کرلو۔ ولا تجسسو۔ یہ ایک غیر محسوس تربیت ہے۔کوئی بداخلاقی کرے، بدزبانی دکھائے۔ وانی صائم۔میں روزے سے ہوں ورنہ یقین کرو تمہارا سر پھاڑ دیتا۔لیکن میں ایسا نہیں کرونگا کیونکہ میں روزے سے ہوں۔ اس کی بجائے میں غصہ ضبط کر کے کئی سو گنا اجر کیوں نہ کماوں؟ سر رمضان کے بعد بھی پھوڑا جاسکتا ہے۔ابھی میں روزے سے ہوں اور میرا روزہ محض بھوک پیاس نہیں ہے۔سب کچھ میسر ہونے، نعمتوں پہ اختیار رکھنے کے باوجود ایک حکم پہ دن بھر بھوکا پیاسا رہنے کا وہ آپشن ہے جسے میں نے خود چنا ہے ۔ حکم کے آگے اختیار کی سپر ڈالنے کا نام روزہ ہے۔یہ اعتراف شکست ہے۔ اقبال عجز ہے۔یہ شکم کی آگ سے قلب کی خاک تک کا سفر ہے۔خاک آگ میں تپتی رہے تو اچھا ہے۔آگ کو علم ہوتے رہنا چاہئے کہ اسے بس خاک کو پختہ کرنے کا کام سونپا گیا ہے وہ خود تعمیر کے جوہر سے خالی ہے۔تعمیر کا جوہر تو خاک کا نصیب ہے۔ وہ خاک جو اعتراف کرتی ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے ۔جب وہ یہ اعتراف کرتی ہے تو اسے جنت سے نکالا نہیں جنت سے اتارا جاتا ہے۔توبہ کے بعد سزا نہیں انعام ملتا ہے۔ سزائے جاریہ اس آگ کے حصے میں آتی ہے جو سر جھکا کر یہ نہیں کہتی۔ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلناو ترحمنالنکونن من الخاسرین ۔یہ کہنے کا حوصلہ اس خاک میں ہوتا ہے جو عشق الہی میں کبھی دن بھر بھوک پیاس برداشت کرتی ہے تو کبھی رات بھر جاگ کر گناہوں کا اعتراف کرتی اور دعائے نیم شبی میں خالق کائنات کا شکر ادا کرتی ہے جس نے اسے خاک سے تخلیق کیا۔اس پیغمبر میں ہوتا ہے جو شکم حوت کے اندھیروں میں لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین کا اعتراف کرتا ہے۔ضد ، ہٹ دھرمی، گناہ پہ اصرار، قصور نہ ماننے والی آگ کا ازلی اور ابدی ٹھکانہ تو جہنم ہے ،جہاں اسے ہمیشہ بھڑکتے رہنے کی سزائے جاریہ دی گئی ہے۔