اے اللہ ہم بہت کمزور اور بے بس ہو چکے ہیں ہمیں معاف کر دے۔ تیرے پیارے محبوب ﷺ کی اُمت اپنی بشر ی کمزوریوں کی وجہ سے خوف زدہ ہے، اے اللہ ہمیں دوبارہ حضرت حیدر کرارؓ اور خالد بن ولید جیسیی شجاعت عطا فرما دے۔ دنیا کی چاہت نے ہمیں عیش پر ست بنا دیاہے،ہمارا ایمان کمزور ہو چکا ہے۔ مسلمان خاک کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔ ہمارا قبلہ اول بیت المقدس ہماری بزدلی کمزوری پر خون کے آنسو بہا ر ہا ہے جبکہ دوسری طرف مسلمان ممالک کے حکمران کفار کی کی خوشنود ی حاصل کر رہے ہیں ،جن باتوں سے حضور اقدس ﷺ نے منع فرمایا ہم بڑے فخر کے ساتھ اُن پر عمل کر رہے ہیں۔ ہم مسلمان مکمل طور پر گرو ہوں اور فرقوں میں بٹ چکے ہیں ۔ ماہ رمضان کے با برکت ایام بڑی تیزی کے ساتھ گزر رہے ہیںلگا ۔دنوں کی برکت ختم ہو رہی ہے ۔ ہر شخص دنیا کے پیچھے دیوانہ ہو چکا ہے ہر کسی کی خواہش ہے کہ کروڑ پتی سے ارب پتی بن جائے جس اُمت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ رزق کا مالک اللہ ہی تو ہے وہی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے رزق زیادہ عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے کم رزق دیتا ہے لیکن ہمارا یقین اور ایمان کمزور ہے ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ اپنی عمر کو صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے میں خرچ کر دیں حضرت علی ؓ نے کتنی خوب صورت بات فرمائی ہے کہ یاد رکھو رزق دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جس کی تم جستجو کرتے ہو اور ایک وہ جو تمہاری جستجو میں لگا ہوا ہے ۔’’اگر تم اُس کی طرف نہ بھی جاؤ تو وہ تم کو مل کر رہے گا‘‘ لیکن ہمیں یہی فکر ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرلیں ،تجوریاں بھریں، ہم نفلی عبادتیں تو کریں گے لیکن زکوٰۃ جو فرض ہے ،نہیں دیں گے اس لیے کہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔ہمارے فلسطینی مجاہدین جو اصل میں بیت المقدس کے رکھوالے ہیں ان کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔لیکن ہمارے کمزور اور بزدل مسلمان حکمرانوں کی وجہ سے قبلہ اول بیت المقدس یہود کے قبضے میں چلا گیا اور آج وہ ہم مسلمانوں کو بیت المقدس میں نماز بھی ادا نہیں کرنے دیتے گذشتہ روز نماز تراویح کے دوران اسرائیل کے غنڈوں نے جس طرح سے نماز کی ادائیگی کے دوران فلسطین کے اِن مسلمانوں پر حملہ کر کے دوران نماز اُن کو شہید کرنا شروع کر دیا اور پھر اِن نہتے مسلمانوں نے پوری قوت ایمانی کے ساتھ اِن بد بختوںکا مقابلہ کیا بلکہ مقابلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ فلسطین کے اِن بہادروں کو سلام کہ جو بغیر اسلحہ کے ساتھ صرف اور صرف اپنی قوت ایمانی کے ساتھ یہودیوں کا مقابلہ کرر ہے ہیں اور ہم دیگر مسلمان اُن کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا ماضی بھی ہمیں نہیں جگاسکا کہ جب ایک عرب مسلمان عورت نے حجاج بن یوسف کو راجہ داہر کے ظلم پر ہزاروں میل دور دیبل کے ساحل سے پکارا تھا یا حجاج یا حجاج !مسلمان عورتوں کو ہندو کی قید سے نجات دلاؤ تو حجاج بن یوسف جو مسلمانوں کی تاریخ میں ظالم اور جابر گورنر ہو گزر اہے اُسی حجاج نے مسلمان عورتوں کی بے حرمتی پر اپنے 17 سالہ بھتیجے محمد بن قاسم ؓ کو راجہ داہر کی سر کوبی اور مسلمان عورتوں کی رہائی کے لیے بھیجا جنہوں نے سندھ میں آکر جہاد اور اپنے حسن اخلاق کے ساتھ ہزاروں ہندوؤں کو اسلام میں داخل کیا اور وہ حضرت خالد بن ولید ؓ کہ جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار تھے کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ز مانہ اقدس میں جنگ مؤتہ اور یمامہ میں فتح حاصل کی تھی اور پھر وہی خالد بن ولید ؓ اور حضرت ابو عبید بن جراح کہ جن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی اُمت کا امین قرار دیا تھا۔ اِن عظیم صحابیوں نے سیدنا فاروق اعظم ؓ کے زمانہ خلافت میں اِس بیت المقدس کو سب سے پہلے فتح کیا تھا یہاں تک کہ یہودونصاریٰ کے پادریوں نے بیت المقدس کی چابیاں جناب حضرت عمر فاروق ؓ کو پیش کرنے کی شرط رکھ دی ا ور پھر حضرت ابو عبید بن جراح ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو خط لکھ کر بیت المقدس آنے کی دعوت دی اور پھر حضرت امیر المومنین نے بیت المقدس کا سفر اپنے ایک غلام کے ساتھ ایک ہی اُونٹ پر طے کیا پھر آپ ؓ بیت المقدس پہنچے اور ہیکل سلیمانی کے ساتھ نماز ادا کی ۔پھر آپ ؓ نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اے مسلمانوں یہ جگہ اِسی طرح سے عیسائیوں کے پاس ہی رہے گی ہاں تم بھی اِس جگہ پر اپنی نماز پڑھ لیا کرو پھر عیسائی پادریوں نے بیت المقدس کی چابیاں سیدنا عمر ؓ کو پیش کیں اور مسلمانوں کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ جس کو صلح نامہ بھی کہا جاتا ہے وہ تحریر کیا گیا افسوس کہ آج وہ لوگ مسلمانوں کو بیت المقدس میں نماز ادا نہیں کرنے دیتے کہ جن کے آباؤ اجداد نے مسلمانوں کے خلیفہ سے التجا کی تھی کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی اور دیوار گریہ کے ساتھ ا نہیں عبادت کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر حضرت عمر ؓ نے اسلام کی وسعت اور عظمت کو دیکھتے ہوئے عیسائیوں کو بیت المقدس کی مخصوص جگہ پر عبادت کرنے کی اجازت دی تھی یہ معاہدہ آج بھی عیسائیوں کے پاس ہے لیکن افسوس کہ ہم مسلمانوں میں نہ اب عمر ابن خطاب موجود ہے اور نہ ہی خالد بن ولید ؓ اور ابو عبیدہ بن جراح اور نہ ہی صلاح الدین ایوبی ؒ موجود ہیں کہ جن کے تقوی اور بہادری نے اسلام کو عظمت بخشی تھی لیکن سلام ہو فلسطین کے بہادر مجاہدین پر کہ جو آج بھی عالم کفر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں ہم دیگر مسلمان صرف اور صرف خود نمائی اور دولت کے پیچھے پاگل ہو کر بھاگ رہے ہیں شاید ہم نے یہی سوچ رکھا ہے کہ مرنا نہیں حالانکہ موت سب کے قریب رہتی ہے۔