غلطی کرنے والا جس غلطی کو ٹھیک نہ کر سکے اس کی سزا ناگزیر ہے لیکن پاکستان میں عدم اعتماد کے نام پر جو کچھ کیا گیا وہ غلطی نہیں بلکہ بڑی طویل منصوبہ بندی اور احتیاط سے کی گئی سازش ہے ۔ سازش کے تانے بانے پاکستان سے باہر بُنے گئے۔ اس سازش پر عمل درآمد ملک کے اندر سہولت کاروں کی مدد اور تعاون سے کیا گیا۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ‘ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی یعنی رجیم چینج سے مماثل بھی ہے اور قدرے مختلف بھی۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کی دوسری جماعتیں حامد کرزئی کی طرح محض آلہ کار اور کٹھ پتلی ہیں۔ حکومت ان آلہ کاروں کو محض انعام کے طور پر نہیں بخشی گئی بلکہ انہیں حکومت تبدیل کرنیوالوں کے مفادات کی تکمیل کرنا ہے۔ جس طرح حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کرتے رہے۔افغانستان میں مستحکم ریاستی ادارے نہیں تھے ریاستی اداروں کے دوسرے ممالک کے اداروں کے ساتھ باہمی تعلقات ہوتے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی حکومت کی تبدیلی کے لئے شمالی اتحاد اور بعض جنگجو گروہوں کی مدد حاصل تھی مگر وہ طالبان کی حکومت بدلنے پر قادر نہیں تھے۔چاہے امریکہ ان کی مالی ، معاشی یا سفارتی حمایت و تعاون کرے تو بھی۔ طالبان حکومت کو تبدیل کرنے کیلئے امریکہ کو براہ راست مداخلت کے لئے حملہ آور ہونا پڑا۔ پاکستان پربراہ راست حملہ ممکن نہیں ، اس کی وجوہات یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں چنانچہ پاکستان میں رجیم چینج کیلئے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہی طریقہ کار اختیار کیا گیا جو مشرف حکومت کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ساتھ بدلنے کیلئے اختیار کیا گیا تھا اس تبدیلی کا آغاز بھی امریکی تعاون اور مداخلت سے ہوا تھا۔ہر فریق کے لئے الگ الگ ضامن بے نظیر کے بیرون ملک میزبان ٹھہرے۔ امریکہ کے زیر سایہ اس سازش یا مداخلت کے پاکستان میں ضامن جناب جنرل پرویز کیانی تھے جو اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ اس غیر مقدس معاہدے پر عملدرآمد کیلئے کیانی صاحب کو افواج پاکستان کا سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔مزے کی بات یہ ہوئی کہ پرویز مشرف خود اپنے قلم سے انہیں عہدہ سونپ رہے تھے جو ان کی حکومت ختم کر کے دس برس کیلئے نواز اور زرداری کے سپرد کرنے والے تھے۔ انہیں ایک مدت کے لئے توسیع بھی دی گئی تاکہ زرداری سے نواز شریف کو حکومت منتقل کرنے کے عمل کو اپنی نگرانی میں مکمل کر سکیں۔ اسٹیبلشمنٹ، ریاست کے تمام مستقل ملازمین جو مختلف اداروں میں منقسم ہیں، سب مل کر اسٹیبلشمنٹ کہلاتے ہیں، قیام پاکستان کے ابتدائی دس برس تک شہری انتظامیہ(سول سروسز) اسٹیبلشمنٹ کی سربراہ رہی۔ ایوب خاں کے مارشل لاء کے بعد سے آج تک اسٹیبلشمنٹ کی کمان افواج پاکستان خصوصاً بری فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ مقننہ اور سیاسی حکومت بھی ریاست ہی کے ادارے ہیں لیکن ایک طرح سے یہ اجنبی ہیں کیونکہ یہ مستقل ملازمین میں شامل نہیں ہوتے ۔یہ ایک مخصوص مدت کے لئے منتخب ہو کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔اگرچہ مقننہ اور اس کے اندر سے پیدا ہونے والی سیاسی حکومت بالاتر قوت کی حامل سمججھی جاتی ہے لیکن فیصلہ سازی میں اس کا جو بھی حصہ ہو فیصلوں پر عملدرآمد کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر ہے اس لئے اصل قوت و طاقت اور اختیار انہی کے پاس رہتا ہے ۔جب انتظامیہ اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ ہو جائے تو وہ سیاسی حکومتوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتی ہے۔ جو ان کی زندگیوں پر ناچنے سے انکار کرے وہ زیادہ دن تک اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتا ۔امریکہ کی خواہش پر اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے حکومت کی تبدیلی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن اب کے بار گدھے نے ہم کو دولتی جھاڑ دی۔ انجام سب کے سامنے ہے۔قدرت پاکستانیوں پر ہمیشہ مہربان رہی ہے۔ اس نے اپنی خاص شفقت و رحمت سے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی تھی۔ انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے نجات کے لئے محمد علی جناح کو قوم کی رہنمائی کے لئے بھیجا۔غلامی سے نجات کے باوجود ذہنی غلامی حد سے بڑھی ہوئی۔ آخر وہ وقت آن پہنچا جب قدرت نے غلامی کی اس قسم سے نجات کے لئے عمران خاں کو کھیل تماشوں سے ہٹا کر ایک سنجیدہ مقصد کے لئے سیاست کی راہ سجھائی۔ برطانیہ میں دو سو سال سے کرکٹ کھیلی جا رہی ہے۔ جس براعظم میں برطانیہ نے اپنی نو آبادیاں قائم کیں وہاں کرکٹ کے کھیل کو فروغ دیا، ہمارے ہاں قیام پاکستان سے پہلے بھی کرکٹ کھیلی جاتی تھی، برصغیر نے بہترین کھلاڑی پیدا کئے لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ اچھے سے اچھا کھلاڑی گوری چمڑی والوں کے خلاف کھیلتے وقت اپنی مہارت بھول جاتا، ذہنی مرعوبیت اسے انگریزوں کے خلاف جیت کے بارے میں سوچنے تک نہیں دیتی تھی‘ نوعمر عمران خاں نے اس کھیل کو اختیار کیا ،اس کا ڈی این اے کچھ قائد اعظم سے ملتا جلتا تھا۔وہ انگریزوں سے مرعوب ہوئے نہ ہندوئوں کی اکثریت سے ڈرے نہ مخالف مسلمان سیاست دانوں سے گھبرائے، اسی طرح عمران خاں نے کرکٹ کی دنیا میں گوروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے کی راہ اختیار کی اور کامیاب رہا اس کی یہی تربیت اب سیاست میں کام آ رہی ہے۔ پاکستان میں مدتوں سے یہ چلن رہا کہ امریکہ کی خوشنودی اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کوئی حکومت بن ہی نہیں سکتی اور اگر کوئی بنی بنائی حکومت ان کے مفاد کا سوچنے کی بجائے اپنے عوام کے مفاد کو ترجیح دینے لگے تو وہ قائم نہیں رہ سکتی۔عمران خاں نے اس اصول کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس نے اپنی قوم اور ملک کے مفاد کے لئے اس جادوئی حصار کو توڑ کر باہر نکلنے کا فیصلہ کیا تو پرانے گٹھ جوڑ نے کٹھ پتلیوں کے ساتھ مل کر اس کی حکومت ختم کر دی ۔ عمران خاں کی کرکٹ کے زمانے کی تربیت نے اس کی مدد کی۔ وہ خم ٹھونک کے کھڑا ہو گیا۔ قوم اس کی ہمنوا بن گئی۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ سب سے منہ موڑ کر قائد اعظم محمد علی جناح کے پیچھے چل پڑی تھی۔امریکہ کی عالمی دہشت اور اسٹیبلشمنٹ کا جادو بے اثر ہوا جاتا ہے ۔قدرت نے نہ صرف پاکستانیوں کو اس ذہنی غلامی سے نجات کا فیصلہ کر لیا بلکہ اس ایک فرد کے ذریعے اس نے ایسے مسلم ملکوں کے سربراہوں کو ہمت دلا دی جو امریکہ کی غلامی پر مدتوں سے رضا مند چلے آ رہے تھے۔انہیں بھی حوصلہ ملا کہ وہ امریکی صدر کا فون تک سننے سے انکار کر سکیں۔ ایک عمران خاں نے پچاس سال سے باریاں لینے والے تجربہ کاروں کو مکھی بنا کر دیوار سے لگا دیا۔امریکہ کے دیو اور اسٹیبلشمنٹ کے جادوگر مل کر بھی ان مکھیوں کو پھر سے انسان نہیں بنا سکتے۔ حیرت ہے ان تجزیہ کاروں پر جو سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کی حکومت اپنی مدت پوری کر سکتی اور عمران خاں کی حکمت عملی ان کی چالبازیوں سے شکست کھا جائے گی۔سیاست دان تو ان پڑھ اور جاہلوں کا گروہ ٹھہرے لیکن کچھ حلقوں کی خبریت ‘ تجزیے اور ان تجزیوں کی بنیاد پر فیصلے کس قدر برے اور پورے ہو سکتے ہیں اس کا تصور بھی بڑا ہولناک لگتا ہے۔چند جعل ساز فرضی سروے بنا کر عمران خاں کی مقبولیت کو 7فیصد تک گھٹا کر ساری اسٹیبلشمنٹ کو گمراہ کر سکتے ہیں۔ اسی گمراہ کن معلومات کی بنا پر وہ ایسا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سازی قوم اور اس کے نوجوان بغاوت پر آمادہ و تیار ہوجائیں۔ہمیں اپنی خفیہ ایجنسیوں کی بیداری اور خفیہ کاری پر ہمیشہ ناز رہا ہے لیکن جعلی سروے اور ان کے نتائج سے اگر یہ ’’ہوشیار ‘‘ بھی متاثر ہو سکتے ہیں تو پھر ہمیں ہر وقت فکر مند رہنا چاہیے۔