غامدی صاحب بڑے شدّ و مدّ کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن پورے کا پورا قطعی الدلالہ ہے، یعنی اس کا ایک ہی مفہوم ہے اور اس کا کوئی دوسرا مفہوم نہیں ہوسکتا۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر پورے قرآن کو قطعی الدلالہ نہ مانا جائے تو وہ میزان اور فرقان باقی نہیں رہتا۔ ان کے متبعین آگے بڑھ کر یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ اس صورت میں قرآن کو کتابِ ہدایت ہی نہیں مانا جارہا اور یہ کہ ایسا کہنے والے بدترین الحاد کرتے ہیں ! ایسا نہیں ہے ! خود غامدی صاحب مانتے ہیں کہ قرآن بہت کچھ presuppose کرتا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ "سنت" قرآن سے موخر نہیں بلکہ مقدم ہے کیونکہ یہ ملتِ ابراہیمی کی روایت تھی جو عملاً رائج تھی اور اس میں رسول اللہ نے تطہیر کرکے امت میں رائج کیا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ پہلے نہیں بلکہ آخری نبی تھے اور اسی لیے پہلے سے موجود مذہبی روایت کو سمجھے بغیر قرآن کا صحیح مدعا نہیں سمجھا جاسکتا۔ وہ یہ بھی موقف رکھتے ہیں کہ احادیث میں مذکور بہت سارے احکام قرآن ہی کے احکام کی توضیح اور توسیع ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سب کچھ کو الگ رکھ کر کیا صرف قرآن کے الفاظ کی لغوی تحقیق کی بنا پر قرآن کا "واحد صحیح مفہوم" معلوم کیا جاسکتا ہے؟ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن کا کوئی ایک مفہوم ہے ہی نہیں؛ بلکہ جو ایک صحیح مفہوم ہے اس تک رسائی محض الفاظ ِ قرآن سے ممکن نہیں ہے اور اس کے لیے قرآن کے متن سے باہر کئی ذرائع کا استعمال ناگزیر ہے۔ غامدی صاحب کاموقف یہ ہے کہ قرآن کے "شہرستانِ معانی میں داخلے"کا دروازہ قرآن کے الفاظ ہی ہیں۔ ساتھ ہی اپنے سلسلے کے ائمہ مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کی تقلید میں جناب غامدی نے یہ موقف بھی اختیار کیا ہے کہ قرآن کریم کی "اصطلاحات"(جیسے الصلوٰۃ، الزکوٰۃ، الصوم وغیرہ) کا وہی مفہوم لیا جائے گا جو امت کے عمل میں تواتر سے نقل ہوا ہے۔ تو کیا یہ سنتِ متواترہ قرآن کے متن سے باہر ایک مستقل حقیقت نہیں ہے اور کیا اسی وجہ سے جناب غامدی صاحب کو مبادیِ تدبرِ قرآن کے بعد مبادیِ تدبرِ سنت نہیں لکھنے پڑے؟ پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کے شہرستانِ معانی تک رسائی صرف اس کے الفاظ سے ہی ہوسکتی ہے ؟ یہاں ان کے موقف میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔ پھر زیادہ سنگین مسئلہ ان امور کا آجاتا ہے جو "امت کے متوارث عمل " کے بجاے احادیث ، یعنی غامدی صاحب کے الفاظ میں "رسول اللہ کے قول ، فعل یا تصویب کی روایات "، کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ غامدی صاحب چونکہ حدیث کو سنت سے الگ سمجھتے ہیں اور حدیث کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں ، اس لیے جہاں حدیث میں قرآن کی کسی آیت ، یا کسی لفظ ، کا ایک خاص مفہوم بیان ہوا ہو اور وہ مفہوم غامدی صاحب کے فہمِ قرآن کے خلاف ہو، اسے وہ خلافِ قرآن قرار دے کر مسترد کردیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ان کی دلیل یہی ہوتی ہے کہ قرآن کے الفاظ قطعی الدلالہ ہیں ، ان کا ایک ہی مفہوم ہے جو وہی ہے جو میں نے سمجھا ہے اور یہ حدیث اس مفہوم کے خلاف جارہی ہے ، اس لیے ناقابلِ قبول ہے، حالانکہ وہ "اپنے فہمِ قرآن"کو "عینِ قرآن" قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر ان کی طرف انکارِ حدیث کی نسبت کی جاتی ہے اور اس کے جواب میں یہ کہنا کافی نہیں ہوتا کہ انھوں نے "میزان" یا "البیان" میں اتنی احادیث نقل کی ہیں۔ مثال کے طور پر سزائے رجم کے مسئلے میں ان کی ساری بحث اسی اصول پر مبنی ہے کہ قرآن کی آیات کا یہ قطعی مفہوم ہے اور رجم کی احادیث اس قطعی مفہوم کے خلاف جارہی ہیں۔ ربا کی مثال لے لیجیے۔ لغت میں ربا اضافے کو کہتے ہیں۔ قرآن نے اس کو "الربا" کرکے ایک خاص اضافے تک مخصوص کردیا۔ اب اس "خاص اضافے" سے کیا مراد ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے ؟ غامدی صاحب اس کے تعین کے لیے لغت کے بعد تاریخ ِ عرب (بالعموم "المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام" نامی کتاب) کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں سے اپنے تئیں الربا کا قطعی مفہوم متعین کرچکنے کے بعد احادیث کا رخ کرتے ہیں اور جو احادیث انھیں اپنے اس مزعومہ "قطعی مفہوم "سے متصادم نظر آئیں انھیں یا تو مسترد کردیتے ہیں یا ان کی ایسی تاویل کرتے ہیں جو خود ان احادیث کے "قطعی الدلالہ الفاظ" کے مفہوم کے خلاف ہوتے ہیں! اس کے برعکس فقہائے کرام کے مطابق حدیث میں بیان شدہ مفہوم بھی قرآن کے الفاظ کے مفہوم میں built-in ہوتا ہے کیونکہ حدیث کو وہ قرآن کی شرح قرار دیتے ہیں اور اسے لغت اور تاریخ پر فوقیت دیتے ہیں۔ چنانچہ جب قرآن میں "الربا " کا لفظ آتا ہے تو فقہائے کرام کے مطابق اس کامفہوم وہی ہے جو احادیث میں بیان ہوا ہے جبکہ غامدی صاحب اس کا اصل مفہوم وہ سمجھتے ہیں جو لغت وتاریخ میں آیا ہے اور حدیث کا بیان کردہ مفہوم ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ مختلف بحثوں کے نتیجے میں خود غامدی صاحب کو ماننا پڑا ہے کہ عند اللہ قطعی کیا ہے وہ تو اللہ ہی جانتا ہے اور ہمیں صرف اس قطعی مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے، گویا تاویل کا اختلاف برقرار رہے گا اور ہمیں دوسروں کے لیے یہ عقلی امکان مان لینا چاہیے کہ ہوسکتا ہے کہ انھی کی تاویل صحیح ہو۔ یہی موقف تو ابتدا سے ہی علماء و فقہاء کا رہا ہے۔ غامدی صاحب کے ائمہ سمجھتے تھے کہ قرآن کی تاویل پر اختلافات ہی فرقہ واریت کی بنیاد ہیں۔ اس لیے انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن کی صرف ایک ہی تاویل ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح فرقہ واریت ختم ہوگئی ہے ؟ قطعی الدلالہ کی ترکیب استعمال کرکے اپنے فہم قرآن کو واحد قطعی مفہوم قرار دینے کی روش کا ایک ایسا خطرناک نتیجہ نکلا ہے جس کی طرف شاید خود غامدی صاحب کا دھیان بھی نہیں گیا تھا کہ انھوں نے قرآن کی جو تاویل اختیار کی، ان کے "متعبین باحسان "(ان کو مقلد کے لفظ سے چڑ ہے ، اس لیے یہ ترکیب استعمال کررہا ہوں ) اسی تاویل کو قرآن کی واحد صحیح تاویل مان لیتے ہیں اور دوسری تاویل کے لیے گنجائش ہی نہیں چھوڑتے۔ نتیجتاً امت کی غالب ترین اکثریت ، بلکہ بسا اوقات پوری امت ، کی تغلیط اور تضلیل شروع کردیتے ہیں۔ قطعی الدلالہ کے اصول سے فرقہ واریت کیا ختم ہوتی اس نے ایک ایسے انتہا پسند فرقے کو جنم دیا ہے جو ہر معاملے کو سیاہ یا سفید ہی دیکھنا چاہتا ہے اور دوسرے رنگ اسے دکھائی ہی نہیں دیتے ! ٭٭٭٭٭