عالمی بینک نے دنیا بھر میں معاشی بحالی کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے بعد مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جنگ ، بحیرہ احمر میں حوثی حملوں ، مہنگائی اور شرح نمو نے حالات مزید بگاڑ دئے ہیں۔عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں یوکرین روس جنگ کا حوالہ بوجوہ نہیں دیا حالانکہ عالمی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان اسی جنگ سے پہنچا۔روس یوکرین جنگ کا فوری اثر دنیا میں فوڈ چین ٹوٹنے کی صورت نکلا۔یوکرین پاکستان سمیت درجنوں ممالک کو گندم فراہم کرتا ہے۔ روس یورپی ممالک کو گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔روسی گیس نہ ملنے پر یورپ کی صنعت متاثر ہوئی ، یوں پیداواری عمل سست ہوا۔پاکستان کی جانب سے کورونا وبا کے بعد بحالی کی کوششیں مالی سال 23 میں بڑے معاشی عدم توازن کے ساتھ رک گئیں۔اس کی وجہ مناسب پالیسی کی تاخیر سے تشکیل اور قومی و بین الاقوامی معاشی جھٹکوں کا ایک سلسلہ تھا۔ قیمتوں میں اضافہ، بیرونی اور مالیاتی توازن کا بگاڑ، شرح مبادلہ میں خرابی اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ، عالمی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، عالمی مالیاتی سختیوں، تباہ کن سیلاب، اور سیاسی صورتحال میں غیر یقینی پن بڑھ گیا ہے۔ امپورٹ کنٹرولز، متواتر ایکسچینج ریٹ فکسنگ، قرض کی اہلیت میں کمی اور سود کی ادائیگیوں کی وجہ سے اعتماد اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑنے لگیں۔ ایک اندازے کے مطابق غربت میں اضافہ اجرتوں اور ملازمت میں کمی کے ساتھ ساتھ مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے ہوا ۔اس نے کم آمدنی والے افراد کی قوت خرید کو ختم کیا۔ پاکستان کو زیادہ موثر بحالی کے لیے درمیانی مدت کے اصلاحاتی ایجنڈے کی ضرورت ہے جو مالیاتی استحکام اور مسابقت کو بڑھانے پر مرکوز ہو، مضبوط سیاسی حمایت اور عزم سے اس ایجنڈے کی حمایت کی جائے ۔ ان اصلاحات میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کر کے محصولات میں اضافہ کرنے کے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔مختلف شعبوں کے لئے سبسڈیز کا خاتمہ ، زراعت، خوردہ اور جائیداد پر ٹیکس عائد کرنا۔ اس میں مالیاتی اخراجات کو معقول بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے جانے چاہئیں۔سرکاری فضول خرچی کو کم کرکے، کاروباری ریگولیٹری اصلاحات اور سرکاری اداروں میں اصلاحات کے ذریعے نجی شعبے کا اعتماد بحال کرکیاور توانائی کے شعبے میں زیادہ اخراجات کو کمکرنا ضروری ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ آئندہ الیکشن سر پر ہیں لیکن کوئی سیاسی جماعت معاشی بحالی کے معاملے پر سنجیدہ نہیں۔عالمی سطح پر فروری 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد کے مہینوں میں فوڈ سٹف انڈیکس میں 10 فیصد اضافہ ہوا۔یورپی مرکزی بینک (ECB) کی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی قیمتوں کے استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ 2022 کی شدید گرمی نے یورپ میں خوراک کی قیمتوں میں ایک فیصد تک اضافہ کیا۔گزشتہ سال کے آغاز میں بہت سے ماہرین اقتصادیات نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہلکی کساد بازاری، یورپ میں گہری کساد بازاری اور چین میں اطمینان بخشمعاشی بحالی کی پیش گوئی کی۔عالمی مبصرین کہتے ہیں کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کوئی کساد بازاری نہیں تھی، یورپ نے توقعات سے بہتر صورت حال کو سنبھال اور چین اپنے قدم جمانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ پیشن گوئی کرنا ایک مشکل کام ہے، 2023 نے معاشی ماہرین کو بینکنگ کی ناکامی سے لے کر مصنوعی ذہانت (AI) میں تیز رفتار ترقی تک، مقابلہ کرنے کے لیے کافی وائلڈ کارڈز فراہم کیے ہیں۔مغرب سمجھ رہا ہے کہ جنوبی ایشیا کو داخلی جھگڑوں میں مصروف رہنے دیا جائے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی حالت زار پر توجہ دینے کی اپیلیں بے سود ہیں۔ مگربی دنیا کا خیال ہے کہ چین کو ایک جانب بھارت کے ذریعے نمٹا جائے اور دوسری طرف تائیوان والا معاملہ گرم رکھا جائے۔اس طرح چین کی پیداواری صلاحیت کو جنگی اخراجات میں ضائع کیا جا سکے گا۔ تائیوان کرائسز رپورٹ میں نئے تجزیے سے آگاہی حاصل ہوتیہے۔ چین معیشت کے ایک مخصوص شعبے پر برآمدی کنٹرول رکھتا ہے، اس معاملے میں تینتیس ارب ڈالر ،ایرو اسپیس انڈسٹری اور یورپی ایرو اسپیس سیکٹر پر چین کے جوابی اقدامات کی ممکنہ لاگت ہے۔ وبائی مرض سے پہلے دسمبر 2019 سے عالمی سطح پر مکانات کی قیمتوں اور آمدنی کے تناسب میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ہاوسنگ انڈسٹری کا کردار اہم ہوا ہے لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملکوں میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی بحالی کے اقدامات کی صورت میںسود کی شرحیں مختصر مدت کے لیے بلند رہیں گی لیکن صفر پر واپس نہیں آئیں گی جب تک کہ کوئی اور جھٹکا نہ لگے۔ 2022 کے اوائل میں آمدنی کے مقابلے میں قیمتوں میں اضافے کے بعد اسے مانگ پر نیچے کی طرف دباؤ برقرار رہا۔مقامی آبادیاتی عوامل جیسے کہ عمر رسیدہ آبادی اور وبائی امراض کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ شہر میں رہنے کی مانگ کا دوبارہ سر اٹھانا بھی آئندہ مسئلہ بن ٓسکتا ہے۔ بہت کم لوگ ایک خاندان کے خریدنے کے لیے مکان تلاش کرتے ہیں۔ملک میں نوجوان آبادی بڑھ رہی ہے۔ نوجوان رہائش کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں اور اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہیں۔ طویل مدت کے بعد وہ صرف اس وقت مکانات کی مانگ میں اضافہ کریں گے جب وہ حکومتوں سے مایوس ہو کر آخر کار باہر چلے جائیں گے اور زرمبادلہ بھیج کر مکان خریدیں گے۔تب تک تعمیراتی صنعت کا کیا ہو گا؟ معاشی بحالی کا ایجنڈہ انتخابی مہم میں زیر بحث نہیں آ رہا ۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابل پاکستان معیشت بحالی کی کوششوں میں کہاں کھڑا ہے۔