پھر ستمبرآیا،میں نے ۶۵ء کے شہیدوں کو جھک کر سلام کیا ،کشمیر اورکارگل کے شہیدوں کو شدت غم سے یاد کیا۔ کئی روز گزرے ایک عجیب سوال ہے جو ہر صبح مشرق سے طلوع ہونے والے آفتاب کے ساتھ ابھرتا ہے۔ راستے کے درو دیوار اور درختوں پر دن بھر سورج کی روشنی کے ساتھ چمکتا ہے اور شام پڑتی ہے تو دھوپ کے ساتھ تحلیل نہیں ہوتا۔مغربی افق پر شفق پھوٹتی ہے تو یہ سوال کچھ اور اجاگر ہوجاتا ہے، جیسے کوئی دلدوز نغمہ جو ہوا میں ہر طرف سے امنڈتا اور قلب و روح کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہو۔ رات کو جب دریائوں، ندیوں، کھیتوں، سڑکوں، نیم پختہ گھروں ،مساجد اور مقبروں پہ چاندنی بچھ جاتی ہے تو یہ سوال سونے والوں کے ساتھ سو نہیں جاتا۔ محو خواب ہونے والے کے خواب میں زہر گھولتا ہے اور کبھی تو اتنا کہ وہ ہڑ بڑا کر جاگ اٹھے یا اسے آنسوئوں کے ساتھ اپنے چہرے پر بہتا دیکھے۔اس سوال سے کسی طرح نجات نہیں مگر ایک بچہ اس قدر مجروح اور علیل ہو جائے کہ بوجھ محسوس ہونے لگے، تب بھی ماں باپ تو اسے سینے ہی سے لگائے رکھتے ہیں، حتیٰ کہ اس کے سانسوں میں زندگی کی تازگی نمودار ہو۔ کچھ سوال بھی ایسے ہوتے ہیں جو دائم آپ کے ساتھ رہتے ہیں، حتیٰ کہ جواب پیدا ہو اور شرح صدر کے ساتھ پیدا ہو۔ پھر وہ دھیرے دھیرے تحلیل ہو جاتے ہیں۔ جیسے صبح صادق کی روشنی میں کہر تحلیل ہوتی ہے اور راستے روشنی سے بھر جاتے ہیں۔ جیسے صحت یاب ہونے والا بچہ قلانچیں بھرتا گھر سے نکلتا ہے اور میدان میں کھیلتے بچوں کے ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔بیس کروڑ سے زائدانسانوں میں سے کوئی ایک جو اس زخم پر مرہم رکھے اور مندمل ہو جانے کی نوید سنائے۔کوئی بھی نہیں،کوئی بھی جلوہ گر نہیں ہوتا،کوئی آگے نہیں بڑھتا۔ کوئی قوم اپنے جاں نثاروں اور سرفروشوں سے اس طرح کا سلوک کیسے کر سکتی ہے جو ہم نے کیا۔ وہ جنہوں نے کئی ایک معرکے برپا کیے، تاریخ جس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔ گزرے زمانوں کے اوراق میں جس کی مثال ڈھونڈی نہیں جا سکتی۔ میں حیران ہوں اور سوچتا ہوں کہ جب وقت کے مورخ کارگل اور کشمیر کی روداد لکھیں گے تو موزوں الفاظ کہاں سے ڈھونڈیں گے؟ وہ ظفر مندوں کی شجاعت، تہور پر زیادہ حیرت کریں گے یا اس قوم اور حکمرانوں کی بے حسی پر، جنہوںنے ان پر فخر کیا اور پھر سرعت سے بھلا دیا ۔ ان کا اکرام نہ کیا۔ حقیقی طور پر ان کا اعتراف اور احترام نہ کر سکی۔ ہمیںان کی عظمت کا اندازہ اور احساس نہ ہو سکا۔ وہ یہ جان ہی نہ سکے کہ زمین کے نشیب و فراز اور آسمان کی آنکھوں نے ایسے جری ،فتح مند اور ایسے سرخرو خال خال دیکھے تھے۔ جب خلق خدا سو جاتی ہے ،تنہائی بسیرا کر لیتی ہے، جب چاند راستوں پر اپنی مضحل روشنی بکھیرتا ہے تو میں خود سے سوال کرتا ہوں۔ ایک ایسا سوال کہ خود پوچھنے والے کو اس پر حیرت ہوتی ہے۔ کیا صرف وہی چیزیں مقدس، محترم، محبوب اور پر اسرار ہوتی ہیں، جن پر زمانے بیت چکے ہوں، جن پر کہر اور دھوپ کے بے شمار موسم گزر جائیں؟ہم نے پہاڑی ڈھلوانوں،برف زاروں پر پڑی لاشوںاور گنج ہائے شہیداں کو کیوں بھلا دیا؟صدیوں سے اپنی آزادیوں کے لیے نکلنے والے شہسوارتاریخ کے ہر طالب علم کی نگاہ میں مکرم اور معتبررہے ہیںاور تاریخ انہیںاحترام سے یاد کرتی ہے۔ سوال تڑپاتا ہے کہ کیا کارگل اور کشمیرکے شہسوار اتنے ہی شجاع، اتنے ہی غنی اور ایثار کیش نہ تھے، کیا وہ اتنے ہی پر عزم اور ولولہ انگیز نہیں تھے؟۔وہ اپنا سب کچھ ہمارے کل پر قربان کر گئے، جیسے بادل بستیوں پر برستے اور نثار ہو جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ مردہ زمین جاگ اٹھے، کھیتوں میں ہریالی ہو، درختوں پرکونپلیں پھوٹیں، راستوں میں ٹھنڈی ہوا بہتی رہے اور ویران دلوں میں امیدیں جاگ اٹھیں۔تاریخ کا مسافر دیکھ رہا ہے ۔وہ جو جموں کشمیر کی رفعتوں پہ نمودار ہوئے۔ وہ جو جان ہتھیلی پر رکھ کر ظلم کی بستی میں اترے،ظالم نے ان کو بستیوں سمیت خاکستر کردیا، اذیت کدوں میں ان کی کھالیں ادھیڑی گئیں،الٹے لٹکائے گئے،گمنام راہوں میں مارے گئے۔وہ پاکستان کی محبت کے اسیر نہ ہوتے تو ،سکھ چین کی زندگی گزار رہے ہوتے۔جان دے دی اپنی محبت سے باز نہیں آئے ان کی قبروں پر پھر بھی سبز ہلالی پرچم لہراتے رہے۔ قوم ان کی پشت پر کھڑی تھی ،حکمران باہم دست و گریباں تھے۔اب ان کی قوم بھی تاریخ کے چوراہے پر تاریکی اور بے خبری کی چادر اوڑھے سو رہی ہے۔ سپین کے ساحلوں پر کشتیاں جلا دی گئی تھیں لیکن کشمیر والے تو اپنی جانوں کے سفینے لے کر بھڑکتی آگ کے سمندر میں اتر گئے، طوفانوں کے اندر قدم جمائے کھڑے رہے۔ ان کے پاس تو کوئی کشتی تھی ہی نہیں۔کیا کشمیر ہماری رگوں میں اب بھی خون کی طرح دوڑتا ہے،کیا غلام محمد بلہ شہید سے تا دم ایں،لاکھوں جانیں اور ان کا لہو یوں ہی رائیگاں جائے گا ؟ کشمیر اورکارگل کے بے مثل شہیدوں اور غازیوں کو ان کی قوم نے کیا دیا؟ کشمیر میں پسپائی ؟ کارگل کے لیے دو نشان حیدر، چند ستارہ ہائے جرات، چند تعریفی بیان، اخبارات میں کچھ تصویریں اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر سرسری سا تذکرہ.... وہ بھی کچھ دنوں کے لیے اور پھر کیا ہم انہیں بھول گئے؟ جموں کشمیر والے بھی تو فتح مند ٹھہرے تھے۔ انہوں نے بھی تو ازلی عدو کے دانت کھٹے کیے تھے۔ ان کا تذکرہ بھی تو ویسا ہی جذبہ مانگتا ہے ان کی یادیں بھی وہی رقت آمیز منظر چاہتی ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ہم تاریخ کی میزان میں کس طرح سرخرور ہوں گے ؟خود اپنے اجتماعی ضمیر کے ترازو میں کس طرح تلے گے؟ حیرت اور ملال کے ساتھ میں سوچتا ہوں کہ آنے والا کل ان کے لیے کیا لائے گا؟ کوئی ہے جو اس سوال کا جواب دے؟ کوئی ہے جو شہیدوں کے خون کی قیمت کا تعین کرے؟کوئی ہے جو انہیں بھی ویسے ہی یاد رکھے جیسے ستمبر ۶۵ء کے وفا شعاروں کو یاد رکھا جاتا ہے؟