کراچی کے ناظم آباد کا بڑا میدان، 1972ء کے دسمبر کا مہینہ، اسلامی جمعیت طلبہ کا سالانہ اجتماع تھا اور میں ایک شخص کی تقریر کا منتظر تھا۔ گذشتہ چار سال سے ادبی حُسن اور معلومات کے خزانے سے معمور اس کی تحریریں میرے شوق کا سامان تھیں۔ وہ واحد لکھاری ہے جسے میں نے اپنے زمانۂ الحاد سے پڑھنا شروع کیا اور اسلام کی منزلِ تسلیم و رضا کے بعد بھی اسی محبت سے پڑھتا رہا۔ وہ اس مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک صالح اور پاکیزہ ادبی صحافت کا امام ہے۔ اس نے ’’اُردو ڈائجسٹ‘‘ کا آغاز کیا تو یہ رسالہ ہر پڑھے لکھے گھر کی زینت بن گیا۔ اس کی دیکھا دیکھی درجنوں ڈائجسٹ مارکیٹ میں آئے، لیکن سوائے شکیل عادل زادہ کے ’’سب رنگ‘‘ ڈائجسٹ کے اور کوئی نہ جم سکا۔ سب رنگ کو تو مرحوم و مغفور ہوئے ایک عرصہ ہو گیا، لیکن اُردو ڈائجسٹ آج بھی اپنی روایتوں کا امین، لوگوں کے ادبی ذوق کی مسلسل تسکین کر رہا ہے۔ ہفت روزوں میں شورش کاشمیری کا ’’چٹان‘‘ مولانا ظفر علی خان کی شاعرانہ صحافت کی طرح شورش کی شاعری کی خوبصورتی لئے لوگوں کے دلوں میں گھر کئے ہوئے تھا، مگر اس کی موجودگی میں ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ نے اپنی بے باکی سے میدانِ صحافت میں ایسے جھنڈے گاڑے کہ بھٹو کی ’’آمرانہ جمہوریت‘‘ میں اس پر بار بار پابندی لگائی گئی۔ یہ شخص الطاف حسن قریشی تھا کہ جسے میں نے تیرہ سال کی عمر میں پڑھنا شروع کیا تھا اور آج میں دَم بخود تھا کہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھوں اور کانوں سے سنوں گا۔ میں اس مقصد کے لئے خاص طور پر اگلی صفوں میں آ کر بیٹھ گیا اور اس کے بعد اس کی تقریر کا ایک سحر تھا جو مجھ پر طاری ہوتا چلا گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس نے اپنے ذہن میں کوئی قلم چھپا رکھا ہے جو باقاعدہ فقرے تحریر جیسی حسنِ ترتیب سے زبان و بیان پر اُتارتا ہے اور الطاف حسن قریشی اسے انتہائی خوبصورت انداز میں ادا کرتا چلا جاتا ہے۔ تقریر کے دوران وہ اپنے لمبے لمبے مہندی سے رنگے بال جھٹکتا تو مجھے اس کا یہ انداز خوب لگتا۔ میں نے اس دن یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ شخص جو میری عقیدتوں کے پائیدان پر ہے اس سے میری خوب رفیقانہ قربت ہو جائے گی، ایک محباّنہ دوستی اور ایک شاندار رفاقت۔ الطاف صاحب سے میری براہِ راست ملاقات ٹھیک سولہ سال بعد کوئٹہ میں ہوئی جب میں وہاں اسسٹنٹ کمشنر تھا اور وہ اپنے ادارے ’’پائنا‘‘ کے لئے زمین کے حصول کے لئے آئے تھے۔ اس ملاقات کے بعد بارہ سال کا طویل وقفہ آ گیا اور جب 2004ء میں مجھے پرویز مشرف کی ’’کرم فرمائی‘‘ سے بلوچستان سے نکال کر پنجاب پھینکا گیا تو پہلی ہی ملاقات میں وہ مجھے کالم نگار کے طور جانتے تھے اور پھر ان سے ایک ایسی محبت کا تعلق استوار ہوا کہ آج محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کب سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جب سے میں نے اپنے گھر میں موجود اُردو ڈائجسٹ کے ذخیرے کو پڑھنا شروع کیا اور پھر مسلسل پڑھتا رہا، اس دن سے لے کر آج تک میرا ان سے مسلسل شناسائی کا عرصہ ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب انٹرویو کرنے کے فن میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ وہ ایک جامع اور مفصل انٹرویو لیتے ہیں اور پھر جیسے وہ اسے ضبطِ تحریر میں لاتے ہیں، ایسی خوبی کسی اور میں نہیں۔ ان کے تحریر کردہ انٹرویوز میں آغاز کا پیراگراف، شخصیت کے تعارف اور انٹرویو کی غرض و غایت کے حوالے سے اس قد بھر پور ہوتا ہے کہ انسان کا تجسس انٹرویو کے لئے بڑھ جاتا ہے اور پھر وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر جہاں چاہے لئے پھرتے ہیں، نہ صرف اس شخصیت سے متعارف کراتے ہیں بلکہ اردگرد کے ماحول کی بھی سیر کرواتے ہیں۔ وہ بلا کے لکھاری ہیں۔ ان کی تحریر کی چھاپ اپنے عہد کے تمام لکھنے والوں پر واضح نظر آتی ہے، لیکن وہ آنے والے ادوار کے لئے بھی ایک درس گاہ کے طور پر زندہ رہیں گے۔ الطاف حسن قریشی کی صحافت کا اصل گرم جوش عہد ساٹھ اور ستر کی دو دہائیاں تھیں۔ یہ بیس سال پاکستان کی تاریخ کے بھی سب سے زیادہ جاندار، متنازع اور سیاسی طور پر ڈرامائی سال تھے۔ اس مختصر سے عرصے میں ایوب خان کا مارشل لاء اپنے جوبن سے زوال تک آیا، یحییٰ خان کے اقتدار کے مختصر سے عرصے میں پاکستان کے واحد شفاف اور منصفانہ انتخاب بھی ہوئے اور اُمتِ مسلمہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ اتنی بڑی فوج نے بھی ہتھیار ڈالے، خود پرستی اور ہوس اقتدار نے ملک کو دولخت کیا اور پہلی دفعہ کوئی سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی بنا، بھٹو کا جمہوری دور جس میں آمرانہ آتش و آہنگ تھا وہ بھی ان دنوں کا جبر ہے اور اس کے بعد ضیاء الحق کے عسکری اسلام کا پرچم اسی دور میں لہرایا۔ ان بیس سالوں میں آسمانِ صحافت پر جس سورج کی روشنی اور الفاظ کی تمازت زندہ تھی وہ الطاف حسن قریشی تھے۔ اس بیس سال کے عرصہ میں اگر کوئی بزمِ ماتم بچھائی جا سکتی ہے تو وہ مشرقی پاکستان کی جدائی کا سانحہ ہے۔ اس المیے کا نوحہ ہماری پوری تاریخ پر محیط ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے اسی مشرقی پاکستان کے حوالے سے ستمبر 1964ء میں لکھنا شروع کیا۔ ان کا پہلا مضمون ’’میرا ڈھاکہ‘‘ ستمبر 1964ء میں اُردو ڈائجسٹ میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کا آخری فقرہ تھا ’’ڈھاکہ کی کوکھ سے ایک انقلاب جنم لینے والا ہے۔ ہم اپنی فراست اور دُور اندیشی سے یہ انقلاب خوشگوار بنا سکتے ہیں، یہ ملک کی فکری قیادت کی کڑی آزمائش کا وقت ہے‘‘۔ یہ وارننگ الطاف صاحب جیسا صاحبِ نظر صحافی ہی دے سکتا تھا۔ لیکن اس مرد درویش کی آواز صدا بصحرا گئی۔ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور وہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے مسلسل لکھتے رہے۔ اُردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں شائع ہونے والے ان کے مضامین لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتِ حال کی منظر کشی کرتے رہے۔ اس دور میں دو طرح کے صحافتی گروہ تھے، ایک وہ جو بظاہر تو محب ِ وطن دکھائی دیتا تھا لیکن اس نے اپنے قلم سے مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان نفرتوں کے اس قدر بیج بوئے تھے کہ اب اس کے نتائج سامنے آ رہے تھے جبکہ دوسرا گروہ وہ خالص محب ِ وطن صحافی تھے جو دونوں خطوں کو محبتوں کی زنجیر سے باندھنا چاہتے تھے۔ الطاف صاحب دوسرے گروہ کے سرخیل تھے، جنہوں نے مسلسل اس درد کا نوحہ لکھا اور اس سازش کو بے نقاب کیا۔ الطاف حسن قریشی صاحب کے اس پندرہ سالہ صحافت کے دوران مشرقی پاکستان کے حوالے سے لکھے گئے مضامین اور شخصیات سے کئے گئے، انٹرویوز کو ایقان حسن قریشی نے ’’مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا‘‘ کے نام سے اکٹھا کیا ہے۔ یہ چودہ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہی نہیں بلکہ ایک عظیم تاریخی دستاویز ہے۔ اس میں اس دور کی تقریباً تمام اہم شخصیات سے کئے گئے الطاف صاحب کے انٹرویوز جمع کر دیئے گئے ہیں، ان میں شیخ مجیب الرحمن، نوابزادہ نصر اللہ، مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن کا آغاز کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خاں، خواجہ خیرالدین، ایئر مارشل نور خان، مشرقی پاکستان کے گورنر ڈاکٹر ایم اے مالک اور ذوالفقار علی بھٹو شامل ہیں۔ اگرتلہ سازش کیس سے لے کر ایوب خان کی گول میز کانفرنس، یحییٰ خان کے اقتدار، انتخابات کے لئے پورے ایک سال کی ہنگامہ آرائی، آرمی ایکشن کے دوران جنرل ہیڈ کوارٹر کی بریفنگ وغیرہ سب شامل ہے۔ کتاب میں اُردو ڈائجسٹ کے اگست، نومبر اور دسمبر 1971ء کے شماروں میں بیان کئے گئے مشرقی پاکستان کے حالات کو ایک خونچکاں باب میں جمع کیا گیا ہے جس کا نام ہے ’’مشرقی پاکستان کی آنکھوں دیکھی تصویر: لہو رنگ مشرقی بازو کا آخری دیدار‘‘۔ کتاب مجھے اس دور میں لے گئی جب میں نے احساس کی دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کتاب کا ہر صفحہ عبرت انگیز ہے، اشک رُلاتا ہے، دُکھ بڑھاتا ہے۔ لیکن یہ دُکھ دائمی ہے، اس کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ الطاف حسن قریشی اس دور میں آئنہ دکھاتے رہے، مگر ہم تو آئینے توڑنے والی قوم ہیں۔ ہم نے صرف آئینہ ہی نہیں توڑا بلکہ ملک بھی توڑ دیا۔ ہمارے ساتھ یہی ہونا تھا۔ کتاب کو ہمارے دوست علامہ عبدالستار عاصم نے انتہائی محبت سے قلم فائونڈیشن بنک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور سے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب نہیں تاریخ ہے۔ ہمارے گناہوں کی دستاویز ہے۔