مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کی ایک خاص برانڈ ہے جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ سیاست واقعی حالات‘ زمینی حقائق اور مفادات کا کھیل ہے اور اس کی کوئی کھڑکی انقلاب کے صحن میں نہیں کھلتی ،سیاستدان محض سیاستدان ہیں انقلابی یا امام خمینی نہیں۔ یہ محض ایک گیم ہے ۔ اس میں سیاستدان زمینی حقائق بھانپ کر اور ہوا کا رخ دیکھ کر یہ سمجھ جاتے ہیں کہ انہیں اقتدار میں رہنا ہے تو پھر انہیں کس مورچے کو اپنی پناہ گاہ بنا لینی چاہیے چنانچہ ایسے سیاستدان اقتدار کے مزے بھی لوٹتے ہیں وزارتوں اور مشاورتوں کا لطف بھی حاصل کرتے ہیں اور ان حقائق بینی کے صدقے ان کی دولت کاروبار اور جائیدادیں بھی محفوظ رہتی ہیں اور یہ پروٹوکول اور خزانے سے بھی فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں جب یہ سیاستدان ایسی پارٹی اور اس کے لیڈر سے جڑے رہنا چاہتے جو گڈ بک میں نہیں ہوتا انہیں لاروں اور دھکوں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور جب یہ لوگ اقتدار اور طاقت کے اصل سرچشمے سے آ کر جڑ جاتے ہیں تو انہیں جیل کی کوٹھڑی کے بجائے مسٹر انکلیو میں رہنے کی جگہ مل جاتی ہے ،ہم یہ تماشے چھ سات دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے سیاستدان ڈنکے کی چوٹ پر اپنے باس کے ہاتھ پر بیعت کر کے خواہ اپنے کتنے بھی حلف بدلنے پڑیں ہمہ تن تیار رہتے ہیں۔ پھر تماشہ دیکھیں جب ایسے لوگوں سے جو زمینی حقائق کا ادراک کرنے میں چمپئن کا درجہ رکھتے میں کوئی دریافت کرے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ان کا ہمیشہ یہ جواب رہا کہ وہ سچے اور کھرے ہیں دور اندیش ہیں۔ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ہماری لغت میں جمہوریت کے معنی یہی ہیں۔ بس وہ باس کا حکم بجا لاتے ہیں جہاں کہیں ڈنڈا چلانا پڑے ڈنڈا چلا دیا جہاں کسی کو ہتھکڑی پہنانا پڑی ہتھکڑی پہنا دی۔ ایوب خان سے لے کر آج تک سیاستدانوں کی ایک خاص برانڈ ہر دور میں موجود رہتی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے سکہ بند سیاستدان بھی کبھی کمپرو مائز کر کے اپنے مخالف کو نیچا دکھانے اور اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے لئے سب کچھ کہنے اور کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ میوزیکل چیئر کا یہ کھیل یونہی چلتا رہتا ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہوتی ہے ان کی مجبوری ہوتی ہے عام لوگوں کو ان زمینی حقائق کا ادراک نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو وہ بھی خواب دیکھنا اور امیدیں کاتنا بند کر دیں اور سب جان لیں کہ ہمارے ہاں سیاست پیشہ اور نظریات کاروبار ہیں سب کو معلوم ہو جائے کہ سیاست نفع نقصان کا ایسا کھاتہ ہے یہاں کبھی کوئی فائدے میں کبھی کوئی نقصان۔ کبھی کوئی جیل میں کبھی وزیر اعظم ہائوس میں‘ یہ ایک کھیل ہے نہ جانے ہم اتنے کیوں سیریس ہو جاتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ سیاست کو محض کھیل سمجھیں خدارا اسے اپنی جان کا روگ نہ بنائیں۔ چلیں آپ میری بات نہ مانیں۔ میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔12اکتوبر 1999ء کے بعدجنرل مشرف نے نیب بنایا اور نیب نے سیاستدانوں کی گرفتاریاں شروع کر دیں تو اس میں چنبہ ہائوس کو تھانے کا اسٹیٹس دیدیا گیا ۔ یوسف رضا گیلانی کو سب سے پہلے چنبہ ہائوس میں رکھا گیا۔ یہ سیل انتہائی خوفناک تھا کمرے میں چارپائی جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ شیشوں پر سیاہ کاغذ چڑھا کر انہیں اندھا کر دیا گیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی کو ایک رات یہاں رکھ کر راولپنڈی پہنچا دیا گیا۔ ایئر پورٹ کے قریب نیب کا تھانہ تھا۔ اس کمرے میں بھی چھوٹے چھوٹے کمرے تھے ٹوٹی چارپائیاں اور گندے کمبل تھے اور کھڑکیاں اندر سے ویلڈ کر دی گئی تھیں اس کمرے کا اہلکار انتہائی بدتمیز تھا وہ یوسف رضا گیلانی کو اوئے کر کے بلاتا تھا۔ گیلانی صاحب پیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لوگوں نے پوری زندگی ان کے ہاتھ چومے تھے انہوں نے جب کسی شخص کو ’’اوئے‘‘ کہہ کر اپنے ساتھ مخاطب ہوتے دیکھا تو ان کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ ٹوٹی چارپائی کے باعث ان کی ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہو گئی ہاتھوں میں رعشہ آ گیا قید کے دوران ان کے تمام اکائونٹس منجمد کر دیے گئے جس کے نتیجے میں ان کی فیملی شدید مالی بحران کا شکار ہو گئی بعد میں انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا وہ پانچ سال تک جیل کی کوٹھڑی میں رہے۔ان کے پانچ سالوں میں سب سے خوفناک دن وہ تھا جب ان کی اہلیہ اپنے ماموں سلیم عباس جیلانی کے ہمراہ چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول سے ملاقات کے لئے گئیں سلیم عباس جیلانی سیکرٹری دفاع رہ چکے تھے، ان کی خالد مقبول سے اچھی گپ شپ تھی ،جب وہ نیب دفتر پہنچے تو جنرل صاحب کے عملے نے انہیں ایک کمرے میں بٹھا دیا دو گھنٹے انتظار کے بعد ملاقات ہوئی تو یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ نے جنرل خالد مقبول کے سامنے اپنے شوہر کی بے گناہی کے ثبوت پیش کئے، بیگم صاحبہ نے ان سے وکیل کی سہولت فراہم کرنے کی درخواست کے ساتھ انہیں بہتر کمرے کی فراہمی اور چند ایک اکائونٹس کھول دینے کی درخواست کی، چیئرمین نے جواب ’’ہم دیکھیں گے‘‘ تک محدود رہا۔ آخر میں خالد مقبول نے پیشکش کی کہ یوسف رضا گیلانی اپنا جرم تسلیم کر کے پلی بارگین پر آ جائیں تو انہیں رہا کیا جا سکتا ہے ،بیگم گیلانی نے پوچھا اس سے کیا ہو گا؟ چیئرمین نے فرمایا کہ یوسف رضا گیلانی کو سیاست ترک کرنی پڑے گی۔ بیگم صاحبہ نے انکار کر دیا پھر چیئرمین نے انہیں آفر کی کہ وہ سرکاری پارٹی میں شامل ہو جائیں تو رہائی ممکن ہے۔ بیگم صاحبہ نے اس پر بھی معذرت کر لی اور یوں یہ ملاقات ختم ہو گئی پھر قدرت کا کمال دیکھیں لاہور میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کا ولیمہ تھا وزیر اعظم خصوصی طیارے سے لاہور پہنچے نیب کے سابق چیئرمین اور اس وقت پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول ان کے استقبال کے لئے سامنے کھڑے تھے ۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ انہیں یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا کہ انہیں اپنے سابق ملزم اور ان کی اہلیہ کا یوں ایئر پورٹ پر بیٹھ ک انتظار کرنا پڑے گا یہ کون سوچ سکتا تھا کہ محض چار سال قبل جیل میں پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف طبیعت خراب ہونے کے بعد جب ہسپتال منتقل کئے گئے تو اس وقت پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے آبدیدہ ہوتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے کہا تھا ’’نواز شریف واقعی بہت بیمار ہیں انہیں فوراً جانے دیں‘‘ ساتھ ساتھ ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈاکٹر شمسی جیسے نامور ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی تھی کون سوچ سکتا تھا کہ جب چار سال بعد جب نواز شریف وطن لوٹیں گے تو وہ 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے سب سے مضبوط امیدوار ہونگے اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خاں اڈیالہ کے جیل میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کو بکھرتے اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہوں گے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ خداوند تعالیٰ کی طاقت ہے جو لوگوں کے دن پھیرتا رہتا ہے جو قیدیوں کو بادشاہ اور بادشاہوں کو قیدی بنا دیتا ہے۔ یقین جانیں یہ ہمارے لئے مہلت ہے کہ ہم اپنے ماضی کی غلطیوں کو سلجھائیں ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ سب ایک میز پر بیٹھ کر یہ تو سوچیں کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں اور ان کا مداوا کیسے کیا جائے دنیا کا کوئی بھی ایسا سوال نہیں جس کا جواب نہ ہو۔ ورنہ یاد رکھیں دنوں کی غلطیوں کو برسوں کے پچھتاوے دھویا کرتے ہیں۔