واشنگٹن ڈی سی سے تیل ابیب تک کی پرواز، براہ ِراست تھی۔ دونوں ایئرپورٹوں پر، جگہ جگہ، جنوب مشرق کے باشندے، اور ان میں بھی خصوصا چینی، چہروں پر ماسک چڑھائے، رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے کسی شرمندہ مجرم کی طرح، سر جھْکائے ہوئے نظر آئے۔ دو سال پہلے، یہی قوم، جتھوں کی شکل میں، دوسروں کا راستہ کاٹتے، بارہا دیکھی تھی۔ آج ایک وائرس کی بدولت، انہیں یہ دن دیکھنا پڑے۔ پورے سفر میں ان کے منہ، ماسک سے ڈھکے رہے۔ یہ واقعہ فروری کا ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ معاملہ ع دیوانے کو، ایک ہْو بہت ہے؟ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی، انہیں پیشگی اطلاع تھی؟ خیر، اسرائیل کو دنیا کا، سب سے بڑا اور ترقی یافتہ گائوںکہنا چاہیے یا پھر قدیم ترین شہر! ان لوگوں نے جدید دنیا میں قدم رکھا تو ہے، پر پوری قدامت پسندی کے ساتھ! اس لیے نہیں کہ یہاں کی بْود و باش میں کوئی اْجڈ پن ہے۔ دیہاتیوں کی سی خْو بْو تو ان میں نہیں، لیکن جو بے ساختگی دیہات اور گائوں کی فضا میں پائی جاتی ہے، اسرائیل میں بھی نظر آتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ قدرتی اور خالص پن فلسطین میں اَور بھی زیادہ ہے!ا یہاں آمد رات دو بجے ہوئی تھی مگر ایئرپورٹ سے خلاصی ہوتے ہوتے، پانچ بج گئے۔ تیل ابیب کے ایئرپورٹ سے نکل کر، مجھے یروشلم جانا تھا۔ خدا خدا کر کے، ایک ٹیکسی نما بس، یا بس نما ٹیکسی میں سوار ہو ہی گیا۔ نظیر اکبر آبادی کی زبان میں، نہ بڑی نہ چھوٹی، یہ منجھولی سواری ہے۔ اسے کرایہ کرنا، سستا پڑتا ہے کہ دس بارہ لوگ ہم رکاب ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ مسافروں کی منزلیں، چونکہ مختلف ہوتی ہیں، مفت میں کچھ نہ کچھ سیر بھی، اس علاقے کی ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی ہمسفروں میں ایک یہودی، امریکن نکلا۔ چند سال پہلے یہ صاحب بھی، امریکہ کی آسائشوں اور سہولتوں کو چھوڑ کر، فتنہ و فساد کے گھر میں آ بسے۔ اس خطے میں رہنے والے یہودیوں میں، ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو امریکا اور یورپی ممالک سے نقل ِمکانی کر کے آئے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہاں آئے ہوئے، مجھے بمشکل دو گھنٹے ہوئے تھے، لیکن اب تک واسطہ، کم از کم دو امریکیوں سے پڑ چکا تھا۔ مقامی یہودیوں کی اکثریت، مسلمانوں سے سخت نفرت کرتی ہے۔ تنفر انہیں عیسائیوں سے بھی ہے اور ان کے مظالم سے تنگ آ کر، عیسائی یہ علاقہ چھوڑتے جاتے ہیں، پر ان کا اصل ہدف، اہل ِاسلام ہیں۔ مجھ پر عام یہودیوں کو زیادہ تر گمان، تْرک یا عرب کا ہوتا ہے۔ گویا فوراً بھانپ لیتے ہیں کہ مسلمان ہْوں۔ ٹیکسی میں، جسے شرْوت کہا جاتا ہے، ایک یہودن بْڑھیا نے مجھے دیکھ کر، کچھ ناک بھوں چڑھائی۔ اس زال کی طرف، جواباً کراہت کی نظر ڈالنے بلکہ نگاہ ضائع کرنے کے بجائے، میں نے رْخ ہی بدل لیا۔ گھنٹے سوا گھنٹے میں، شروت یروشلم میں داخل ہو گئی۔ سارے اسرائیل کی جان یروشلم اور یروشلم کی جان شہر ِقدیم میں ہے۔ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ حضرت ابراہیمؑ کے ماننے والے تینوں مذاہب کے لیے، ایک عالم کی دلکشی، اس مختصر سے خطے میں کھنچ آئی ہے! یا شاعر کی زبان میں ع عالم ہی عالم، منظر ہی منظر اس خاکسار کی نپی تْلی رائے ہے کہ کسی بھی شہر کا بھلا بْرا، اصلی رنگ دیکھنے کے لیے بہترین وقت یا علی الصباح کا ہے اور یا شام کا! صبح تو خیر کسی بھی شہر کی ہو، دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ یہاں ورود اس شہر میں ہو رہا تھا جسے شہروں کا شہر کہنا چاہیے۔ جھْٹ پْٹے کا وقت اور داخل ہونا اس شہر ِبے مثال میں۔ دل پر کتنے ہی عالم گزر گئے۔ سودا کہتے ہیں فجر ہوتے جو گئی آج مری آنکھ جھپک دی وہیں آ کے در ِدل پہ خوشی نے دستک پوچھا میں "کون ہے؟" بولی کہ میں وہ ہوں غافل! نہ لگے شوق میں جس کے کبھی شائق کی پلک یہاں بھی نیند کا تو سوال ہی کیا، میں ہمہ تن شوق تھا! آگے بڑھنے سے پہلے، شہر ِقدیم کا محل ِوقوع سمجھ لیجیے۔ مختصر سا یہ شہر، جس کے چاروں طرف فصیلیں قائم ہیں، دو پہاڑوں کے دامن میں بسا ہے۔ جبل ِزیتون اور جبل ِصیہون۔ ان دو ناموں میں، معنیٰ کا ایک جہان آباد ہے! زیتون کا پہاڑ، فلسطینیوںکے تصرف میں ہے اور صیہون کا پہاڑ، یہودیوں کے قبضے میں۔ ان دونوں پہاڑوں پر، ہزاروں بے نشان قبریں ہیں۔ سنا ہے کہ ان میں سے بے شمار، اْن انبیاء کے مراقد ہیں جو یہودیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ابراہیمی مذاہب تین ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقیقت اگر ہمیشہ سے ایک رہی ہے تو مذاہب تین کیسے ہو سکتے ہیں؟ مذہب ایک ہی تھا، جسے انسانوں نے تین بنا دیا۔ سرور ِکائنات ؐ کی ذات سے، مذہب ِاصلی کی تبلیغ، مکمل بھی ہو گئی اور متشکل بھی! مولانا رومی نے خوب نکتہ نکالا ہے۔ نام ِاحمد (ﷺ)، نام ِجملہ انبیاء ست چون کہ صد آمد، نَوَد ھم پیش ِماست ( آنحضور ؐ کی ذات میں، تمام انبیاء کے فضائل شامل ہیں۔ جیسے، جب سو کا ہندسہ آ جاتا ہے تو اس میں ایک سے ننانوے تک، سارے شامل ہوتے ہیں) دو سال پہلے بھی قیام، جبل ِزیتون پر تھا اور اب کی بار بھی انتخاب اسی پْرانے ہوٹل کا کیا تھا۔ عربوں کی مہمان نوازی، ضرب المثل ہے۔ میرے فلسطینی میزبان نے بھی اپنے محدود وسائل کے باوجود، اس ہوٹل کو سخی کا دل بنا رکھا ہے! ہوٹل والوں کا ضابطہ اور وتیرہ ہے کہ دو بجے سے پہلے، کمرہ آپ کے تصرف میں نہیں آ سکتا۔ میں یہاں صبح کے ساڑھے چھے بجے آ پہنچا اور تھکن کی وجہ سے، ذہنی طور پر تیار تھا کہ ایک روز کا اضافی کرایہ طلب کیا گیا، تو فی الفور ادا کر کے، کمرے کی راہ لی جائے۔ ہوٹل کے مالک کی آنکھیں، خدا جانے کیونکر، جاتی رہی ہیں۔ پہچان تو وہ نہیں سکتا تھا، لیکن جب میں نے اپنا نام بتایا اور یہ بھی کہ دو سال پہلے بھی، قیام یہیں کیا تھا تو اس نے کمرے کی چابی، فورا ًمیرے حوالے کرتے ہوئے، ناشتے کی بھی دعوت دے دی!