یہ روایت حضرت عثمان مروندی لعل شہباز قلندرؒ سمیت کئی بزرگوں سے منسوب ہے لیکن سندھ میں عام طور پر اسے سیہون والی سرکار کے لئے بیان کیا جاتا ہے کہ جب وہ سرزمین سندھ پر وارد ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ ’’سرکار آپ کس طرف آ نکلے؟ یہ تو پیروں فقیروں کی دھرتی ہے، یہاں تو پہلے ہی اتنے سارے اللہ والے موجود ہیں جو دن رات خلق خدا کی خدمت پر مامور ہیں، ان کی موجودگی میں آپ کیا کریں گے؟‘‘ چند لمحے پہلے ایک مقامی چرواہا مہمان سید کی خاطرداری کے لئے دودھ کا پیالہ اور سیدوں کے نام پر مر مٹنے والا مقامی باغ کا ایک مالی مسافر سید کی دل داری کے لئے گلاب کا تازہ پھول لایا تھا، مسافر سید زادہ درویش کے سوال پر مسکرایا اور بائیں ہاتھ میں چرواہے کا لایا ہوا دودھ کا پیالہ پکڑا اور دائیں ہاتھ سے گلاب کا پھول دودھ میں ڈالا تو وہ پھول دودھ کے پیالے میں تیرنے لگا، سیدزادے نے سوال کرنے والے درویش کی طرف مسکرا کر دیکھا اور کہا: ’’ہم پیروں فقیروں کی دھرتی پر کچھ یوں رہیں گے-‘‘ سوال کرنے والے درویش کو جواب کچھ اس ادا سے ملا کہ وہ نعرہ مستانہ بلند کر کے دیوانہ وار سرکار لعل شہباز قلندرؒ کے قدموں میں ڈھیر ہو گیا- وہ دن اور آج کا دن، ان کے وصال کے 770 سال بعد بھی لعل شہباز قلندرؒ کے نور سے سیہون شریف کی دھرتی پر جلنے والا علم و عمل کاروشن چراغ ایک زمانے کو اپنی ضیا سے منور کر رہا ہے- سخی شہباز قلندر کی اسی دھرتی سیہون کی خوشبوئوں میں مہکتے گوٹھ حاجی پریل شاہ کے ایک درویش سید زمین دار حاجی پریل شاہ کے گھر میں جنم لینے والے ایک قلندر صفت بچے نے بڑے ہو کر اپنی شان قلندری اور محبوبیت سے ثابت کیا کہ وہ شہباز قلندرؒ سرکار کے خانوادے سے تو نہیں لیکن یہ سید زادہ اپنے افکار اور کردار سے سیہون کی سرکار کی اسوہ کا حقیقی عکس ہے، عجز و انکساری میں یکتا، نرم خو اور سر تا پا محبوبیت کی تصویر، میری مراد سید ممتاز علی شاہ سے ہے جو 31 مارچ 2022 ء کو اپنی مدت ملازمت پوری کر کے سندھ کے چیف سیکرٹری کے عہدے سے رخصت ہوئے ہیں- خوشامد اور مبالغہ آرائی کو بالائے طاق رکھ کر خانوادہ سید پریل شاہ کے روشن چراغ کی عملی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو شاید ہی کوئی سرکاری افسر دیانت اور انسان دوستی میں ان کی ہم سری کر سکے- سیہون شریف سے پرانی پل والے راستے سے 26 کلو میٹر کی مسافت پر گوٹھ حاجی پریل شاہ میں جنم لینے والا سید زادہ بلا شبہ سندھ ہی نہیں پورے پاکستان میں لاکھوں میں ایک ہے کہ جس نے سرکاری ملازمت میں ان گنت اہم عہدوں پر رہ کر عزت، نیک نامی اور دعائوں کے سوا کچھ بھی نہیں کمایا- انہوں نے انگریزی اور معاشیات میں ماسٹرز کیا اور عملی زندگی میں اپنی خداداد صلاحیتوں سے سندھ اور پاکستان کے عوام کی خدمت کو اپنی زندگی کا وطیرہ بنائے رکھا۔ سید ممتاز علی شاہ 25 ستمبر 2018ء سے اپنی ریٹائرمنٹ 31 مارچ 2022ء تک سندھ کے چیف سیکرٹری اور سندھ ایجوکیشن بورڈ کے رکن رہے ہیں، انہیں سندھ کے 78 ویں چیف سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل ہوااور انہوں نے دن رات خدمت کر کے افسر شاہی میں خدمت وعظمت کی ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں ان کا تجربہ انتہائی وسیع اور قابل قدر رہا ہے۔ سندھ کے چیف سیکرٹری مقرر ہونے سے پہلے وہ بحری امور، مذہبی امور کی وزارتوں میں وفاقی سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے اور کچھ عرصہ کے لئے سندھ کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ بدین، میر پور خاص (سندھ) اور نصیر آباد (بلوچستان) میں ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر (ڈی سی او) رہے اوراپنے کیریئر کے آغاز میں انہیں ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر بھی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔سندھ میں اپنی ملازمت کے سفر میں سید ممتاز علی شاہ اینٹی کرپشن کے چیئرمین، سیکرٹری بہبود آبادی ، سیکرٹری ورکس اینڈ سروسز ،سیکرٹری جنرل ایڈمنسٹریشن، سیکرٹری اطلاعات سندھ بھی تعینات رہے۔اس دوران انہیں چند ماہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ جہاں بھی رہے ممتاز رہے اور اپنے کام سے شان دار یادیں چھوڑ کر رخصت ہوئے۔ سید ممتاز علی شاہ سندھ کے محکمہ اطلاعات میں دو بار مختصر مدت کے لیئے سیکرٹری رہے، پہلی بار وہ 16 جنوری 2010 ء سے 21 جون 2011 ء تک اور پھر 22 نومبر 2011 ء سے 16 فروری 2012ء تک یہاں بطور سیکرٹری اطلاعات رہے- میری ان سے پہلی ملاقات جنوری 2010 میں ہی ہوئی جب وہ ڈائریکٹر انفارمیشن ایس ایم اقبال کے ہمراہ نوائے وقت، دی نیشن کے دفاتر کھڈہ مارکیٹ ڈیفنس تشریف لائے- سچ تویہ ہے کہ سیہون کا یہ سید زادہ پہلی ہی ملاقات میں میرے دل کو بھا گیا- پھر تو ہماری عقیدتوں اور ان کی شفقتوں کا سلسلہ دراز ہی ہوتا چلا گیا- وہ جہاں بھی گئے، ہماری باہمی قربتوں میں کوئی کمی نہ آ سکی بلکہ تعلقات میں استحکام آتا چلا گیا- 2017ء میں 92میڈیا گروپ جوائن کرنے کے بعد توان کے میاں رشید صاحب سے تعلق خاص کی وجہ سے یہ قربتیں اور بھی بڑھ گئیں۔ وہ سیکرٹری سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ ہو گئے اور پھر 2018 ء میں انہیں وفاق نے چیف سیکرٹری سندھ مقرر کیا تو ہماری خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا- وسوسے ، خدشات بھی تھے کہ سندھ کی بیوروکریسی میں گروہی رنگ غالب رہتا ہے، دوسرا وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں زور کی ٹھنی ہوئی تھی، نہ جانے شاہ صاحب اس ماحول میں کام بھی کر سکیں گے کہ نہیں لیکن سید ممتاز علی شاہ نے اپنی مہارت کاری سے ساڑھے تین سال اس طرح گزار دیئے کہ کسی موقع پر بھی میں نے انہیں بے بس محسوس نہیں کیا۔شاہ صاحب کا افسر شاہی کاسارا دورانیہ ایک طرف ان ساڑھے تین برسوں میں انہوں نے سندھ کے لئے مختلف شعبوں میں جو خدمات انجام دیں وہ قابل ستائش ہیں۔ شاہ صاحب سے ہماری قربت ہمیشہ بے لوث رشتوں پر استوار رہی ہے، میں نے انہیں کوئی کام بتا کر کبھی دوستی کو آزمائش میں نہیں جھونکا اور انہوں نے بھی ہمارے ساتھ کبھی روایتی افسروں والا برتائو نہیں کیا- مجھے ان سے اپنے تعلق پر بے پناہ خوشی اور فخر ہے۔ شاہ صاحب کی ریٹائرمنٹ سندھ کے عام لوگوں ، سندھ حکومت کے نچلے درجے کے ملازمین اور تعلیم اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیئے انتہائی اداس کر دینے والی خبر ہے۔سید ممتاز علی شاہ جیسے ایمان دار اور جفاکش افسر کم زور ریاستی ڈھانچے میں عام لوگوںکے لیئے خدا کی طرف سے عطیہ کی مانند ہوتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ لعل شہباز قلندر ؒکے آستانے سے حاصل ہونے والا روحانی فیض ہے جس نے حاجی پریل شاہ کے لعل کو ہم سب کی آنکھ کا تارہ بنا دیا ہے۔ سندھ حکومت آج سیہون کے اس عظیم سپوت کی خدمات سے محروم ہو رہی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں سید ممتاز علی شاہ کسی بھی حیثیت اور کسی بھی شکل میں سندھ کی خدمت ضرور کریں گے کیوں کہ سندھ کوابھی ان کی ضرورت ہے۔