اس وقت ملک میں پانی کی قلت کے حوالے سے بحث اور ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت کے بارے جس قدر شدت سے بات چیت ہو رہی ہے شاید پاکستان کی تاریخ میں کبھی اس طرح اس پہلو سے اتنے گھمبیر معاملے کو کبھی نہ دیکھا گیا نہ سوچا گیا۔ ہاں یہ ضرور ہوتا رہا کہ سیاست چمکانے کے لئے کالا باغ ڈیم کوتختۂ مشق ضرور بنایا جاتا رہا۔ کبھی کسی سیاسی جماعت نے ووٹ لینے کے لئے اس ایشو کی بجھی ہوئی راکھ میں سے چنگاری ڈھونڈ کر آگ بھڑکائی اور کبھی کسی ڈکٹیٹر نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اس کو مسئلہ بنا دیا۔ کالا باغ ڈیم کی اگر بات کریں تو اس بات سے اس وقت کوئی اختلاف نہیں کرے گا کہ یہ ایک متنازع مسئلہ ہے، بھلے اس کی منظوری ذوالفقار علی بھٹو کے دور میںپلاننگ ڈیپارٹمنٹ نے دی ہو یا بینظیر بھٹو نے بطور وزیر اعظم اس کی تعمیر کے لئے رقم مختص کی ہو۔اسکے فوائد سے ہر کوئی قائل ہو لیکن کیونکہ اس کے چھیڑنے کا مطلب ہے کہ آپ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ مری ہوئی سیاسی جماعتیں جنکی عوام میں پذیرائی تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے وہ بھی اچھل اچھل کر سیاسی فائدہ لینے کی کوشش کرتی ہیں۔یہی اب ہو رہا ہے۔ پتہ نہیں کس عقل کے اندھے کو ڈیمز کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کی اچھی خاصی کاوش سے تکلیف لاحق ہوئی کہ کالا باغ ڈیم کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اس حرکت کو ہلکا بالکل نہیں لینا چاہئے کیونکہ ایسا ہی کام 1987ء میںجنرل ضیاء الحق نے کیا تھا۔ جب 1986ء میںیہ طے ہو گیا تھا کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ملتوی کیا جا رہا ہے تو اسکے چند ماہ بعد خصوصی پمفلٹ چھپوا کر کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں ایک مہم شروع کی گئی۔ اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مہم پنجاب سے شروع کرائی گئی۔ ہوا یوں کہ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں اپنے علاقہ شورکوٹ شہر سے میں بلدیہ کا کونسلر منتخب ہوا۔ شہر میں پانی کی نکاسی کا بہت ناقص نظام تھا میں نے اس کے لئے اپنے تمام ساتھیوں کو قائل کیا کہ ہمیں سیوریج سسٹم ترجیحی بنیادوں پر لگانا چاہئے۔ اس سلسلہ میں پنجاب حکومت کو ایک منصوبہ تیار کر کے درخواست گزاری گئی۔ صاحبزادہ نذیر سلطان ہمارے ممبر قومی اسمبلی رہ چکے تھے بعد میں بھی وہ وہاں سے منتخب ہوئے، انہیں اس منصوبے کی منظوری کے لئے درخواست کی۔ اتفاق سے اس وقت ممبر پلاننگ پنجاب انکے دوست تھے۔ ایک روز صاحبزادہ نذیر سلظان نے مجھے لاہور بلایا اور ہم ممبر پلاننگ سے ملنے پہنچ گئے۔ انہوں نے کمال شفقت کی اور ہمارے پروجیکٹ کی منظوری کا یقین دلایا جو کہ بعد میں ہو بھی گیا۔ جب ہم روانہ ہو رہے تھے انہوں نے مجھے اور صاحبزادہ نذیر سلطان کو ایک ایک پمفلٹ تھمادیا۔ جب اس کا عنوان دیکھا تو وہ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بننا چاہئے تھا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ پنجاب ہی تو اس منصوبے کی حمایت میں ہے اور ویسے بھی اب فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس منصوبے کو فی الحال ملتوی کیا جا رہا ہے تو اس پمفلٹ کی کیا تک بنتی ہے۔ ممبر پلاننگ نے بڑی معصومیت سے کہا کہ ہماری ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ اس ایشو پر کام کیا جائے سو ہم پمفلٹ چھپوا کر تقسیم کر رہے ہیں۔تھوڑی سی دماغ سوزی اور کچھ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں سے بات کر کے اندازہ ہوا کہ ڈکٹیٹر کو اپنے سے توجہ ہٹانے کے لئے اس قسم کے ایشو بہت مدد کرتے ہیں اس لئے یہ کام کیا جا رہا ہے۔یہ سلسلہ صرف جنرل ضیاء تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ ہرکس و ناکس نے موقع کی مناسبت سے کالا باغ ڈیم کی آڑ میں خوب سیاست چمکانی ہے۔ کہیں اسکونوشہرہ کو ڈبونے کی سازش تو کہیں سندھ کو بنجر بنانے کا منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ کہیں اسکو بم سے اڑانے کی دھمکی دی جاتی ہے تو کہیں ملکی سالمیت کے خلاف سازش بتایا جاتا ہے۔دوسری طرف جو لوگ اس منصوبے کے حوالے سے تکنیکی معلومات رکھتے ہیں انکے خیال میں اس سے بہتر کوئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ بہر حال وجہ جو بھی رہی ہو سندھ کی طرف سے تحفظات میں جان ہے باقی یونہی شامل باجہ ہیں۔اگر ہم ایک بار پھر جنرل ضیاء کے دور کی بات کریں تو چشمہ جہلم لنک کینال کا جھگڑا انکے دو چہیتے وزراء اعلیٰ، میاں نواز شریف اور سید غوث علی شاہ کے درمیان شروع ہوا جب سندھ کو شکایت ہوئی کہ پنجاب انکے حصے کا پانی اس کینال کے ذریعے نکال رہا ہے۔ جنرل ضیاء نے کچھ عرصہ اس جھگڑے کے مزے لئے پھر اسکو حل کرنے کے لئے میدان میں کود پڑے۔ حل کیا کرنا تھا دونوں صاحبان کو اپنے جامے میں رہنے کا حکم دیا اور چند ہفتے اخبارات کی شہ سرخیوں میں رہنے والا یہ مسئلہ دم توڑ گیا۔لیکن کچھ عرصہ بعد پھر یہی معاملہ اٹھ کھڑا ہوا جس کو حل کرنے کی ایک موثر کوشش 1991ء میں میاں نواز شریف نے صوبوں کے مابین پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) تشکیل دی۔ اس کے ذریعے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا مسئلہ بظاہر مستقل حل کر دیا گیا۔ اس اتھارٹی میں چاروں صوبوں اور مرکز کی نمائندگی ہے۔ اسکا چیئرمین مستقل نہیں ہے بلکہ ہر صوبے اور مرکز باری باری اس عہدے پر آتے ہیں۔ پھر پانی کی تقسیم کو مزید موثر بنانے کے لئے ٹیلی میٹری سسٹم بھی لگایا گیا ہے تا کہ سب صوبوں کو پتہ چلتا رہے کہ اسے اسکے حصے کا پانی مل رہا ہے کہ نہیں۔ ان تمام انتظامات کے باوجود جھگڑا ختم نہیں ہوا۔چھوٹے موٹے جھگڑے چلتے رہے لیکن 2010ء میں ایک بار پھر یہ معاملہ شدت اختیار کر گیا جب پنجاب نے اپنے ممبر کو ارسا کے اجلاس میں جانے سے روک دیا اور الزام لگایا کہ یہ سندھی ارسا بن کے رہ گیاہے۔ اس قسم کے معاملات کے ہوتے ہوئے سندھ اور پنجاب میں خصوصاً ایک بد اعتمادی کی فضا موجود ہے۔ اس کو ختم کئے بغیر کالا باغ ڈیم کو تعمیر کرنا تو کجا اسکا ذکر چھیڑنا بھی دوسرے پانی کے ذخائر کی تعمیر کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔لہٰذا ڈیموں کو سیاست سے پاک رکھیں تا کہ ہماری نسلیں اس غلطی کا خمیازہ نہ بھگتیں۔کالا باغ ڈیم پر سیاست اور بحث کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھیں۔