امن اور انتشار کے درمیان حد فاصل ہے اور یوں ریاست کے استحکام اور خوشحالی کی شرطِ اول ہے۔ نہ صرف عدل کی فراہمی سستی ، معیاری اور بروقت ہو بلکہ فریقین کی حیثیت ، مقام اور مرتبہ کے قطع نظر فیصلے کیے جائیں ۔تب ہی عدل کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک تو عدالتی اصلاحات نہیں ہوئیں اور انصاف لوگوں کی دہلیز پر ملنے والا التوا میں پڑا ہے۔ د وسرے، جج حضرات پر کام کا دبائو اتنا زیادہ ہے کہ کیس التوا میں پڑے رہتے ہیں۔ وکیل حضرات متمول کلائنٹس کو فوقیت دیتے ہیں۔ قانون شہادت کی پیچیدگیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یوں انصاف کا معاملہ لٹک جاتا ہے۔ دیوانی کیسز کے فیصلے تو نسلوں چلتے ہیں۔ یہ معاملات نچلی عدالتوں میں بہت زیادہ ہیں۔ آئینی معاملات کو نمٹانے کے لیے مخصوص کورٹ نہ ہونے کے باعث سپریم کورٹ کا خاصہ وقت سیاسی کیسز میں صرف ہوجاتا ہے۔ جنہوں نے آئین میں ترمیم کرنی ہے ، انہیں اس میں دلچسپی نہیں بلکہ یوں کہیں کہ وہ چاہتے ہی نہیں کہ حالات تبدیل ہوں۔ معاشرتی اونچ نیچ کے مارے معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس تناظر میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کا یہ بیان کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں اور ان پر اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی دباو نہیں ، جمہوریت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والوں کے لیے نہایت ہی حوصلہ افزا بات ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ جب وطنِ عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادت عہد کرچکی ہے کہ ادارے آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کریں گے، آزاد عدلیہ بنیادی حقوق کی پاسداری اور سیاسی استحکام میں کلیدی کردار ادا کریگی۔ چیف جسٹس کا حوصلہ افز ا بیان پڑھا تو سامنے میز پر سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح عمری' ارشاد نامہ ' پر نظر پڑ ی۔ رواں سال میں چھپا یہ دوسرا ایڈیشن ہے جو کتاب کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں نہ صرف عدلیہ سے منسلک لوگوں بلکہ ملکی سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے ارشاد حسن اپنے بچپن سے لیکر جوانی تک کے حالات و واقعات بتاتے ہیں۔ اپنی امنگوں ، خواہشوں اور خوابوں کا ذکر بھی کرتے ہیں اور مشکلا ت کا بھی ۔ قسمت کی دیوی مہربان ہوتی ہے تو خدا کا شکر بھی بجا لانا نہیں بھولتے۔ وکالت کا پیشہ اختیار کرتے ہیں تو اس سے عشق کی حد پیار بھی کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے انہیں ایک کامیاب وکیل سے چیف جسٹس سپریم کورٹ بننے تک مدد کی ان کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ کے عہدے سے لیکر چیف الیکشن کمشنر بننے تک وہ اپنے آپ کو ایک پیشہ ور اور اصول پسند وکیل سمجھتے ہیں اور اسی پہچان پر قناعت کرتے ہیں۔ ان کا بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ عہد کم دلچسپی کا حامل نہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے پوری ایک دہائی کے سیاسی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں آنے والے معاشی بحران کے تناظر میں اقتدار سنبھالا تھا اور ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے ایک ایسے جامع منصوبے کی بات کر رہے تھے جس کی ضرورت اور اہمیت عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔حزب اختلاف ، جس نے ن۔لیگ کی بھاری مینڈیٹ والی حکومت کا تختہ الٹنے پر مٹھائیاں بانٹیں تھیں تاہم نئے انتخابات کے اعلان کا مطالبہ کر رہی تھی تاکہ جمہوریت بحال ہو اور اقتدار منتخب قیادت کو سونپا جاسکے۔ چونکہ نواز شریف جیل میں تھے اور ان کی پارٹی زیر عتاب تھی، یہ واضح تھا کہ اگلا معرکہ کس نے سر کرنا تھا۔ یعنی جنرل مشرف پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملا لیتے ، اس کی قیادت اور حامی افسر شاہی پر ن لیگ دور میں ہوئے بدعنوانی اور سنجیدہ جرائم کے کیس ختم کردیے جاتے۔ بینظیر صاحبہ خود ساختہ جلا وطنی سے باہر آجاتیں اور ان کے خاوند جیل سے باہر۔ ظاہر ہے نہ تو این آر او ملکی مسائل کا حل تھا اور نہ ہی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیر نئے انتخابات۔ ان حالات میں عدلیہ کا کردار کیا ہوسکتا تھا؟ اٹک قلعے میں قید نواز شریف کے وکلا ان کی ملٹری کورٹ میں ٹرائل، ایمرجنسی کے نفاذ اور ن لیگ کی حکومت برخواست ہونے کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے تھے اور وہاں چیف جسٹس سعیدالزمان صدیقی نے اس کیس کو قابل سماعت قراردے دیا لیکن بعد ازاں اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سول عدالتیں کام کریں گی یا ملٹری۔ اس پس منظر میں ارشاد حسن خان سامنے آتے ہیں۔ سینیارٹی کے اصول پر ،پی سی او (عبوری آئین ) کے تحت چیف جسٹس کا حلف اٹھاتے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ اگر انارکی اور ملٹری کورٹس سے بچنا ہے توعدالتی نظام کو کام کرنا چاہیے۔ اس دوران نواز شریف ایک معاہدے کے تحت جلا وطن ہو جاتے ہیں۔ ظفر علی شاہ کیس سامنے ہے۔ وکلا اصرار کرتے ہیں کہ جو ہوا، اسے بھولا جائے ، آگے کی سوچی جائے۔ طویل بحث کے بعد فیصلہ دیتے ہیں: جنرل مشرف اپنا اصلاحاتی ایجنڈہ نافذ کریں لیکن انہیں اس حوالے سے آئین میں ترمیم کا اختیار ' تب ' حاصل ہے (جیساکہ کہ پی سی او میں کہاگیا ) جب آئین میں اس کا حل نہ ہو۔ جہاں تک انتخابات کے انعقاد کے لیے تین سال دینے کی بات ہے، الیکشن کمیشن نے انتخابی فہرستوں کی تیاری کے لیے دوسال مانگے تھے، نواز شریف کے وکلا کے مشورے ، اصلاحاتی ایجنڈے اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر تین سال کی مدت دی گئی۔ اور یوں کیس نمٹا دیا گیا۔ ان کا فیصلہ نافذ ہوکر رہا۔ انتخابات کا معاملہ ماضی کا طرح لٹکا نہیں۔ مصنف شاکی ہیں کہ ان کے ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کو پورے سیاق سباق میں نہیں سمجھا گیا اور یہ کہ انہوں نے مشرف کو آئین میں ترمیم کرنے کی کھلی چھٹی نہیں بلکہ انہیں ایسا کرنے سے روکا تھا۔ انہیں فخر ہے کہ وہ جوڈیشنل اکیڈمی کا قیام عمل میں لائے ، زیر التوا کیسز کو نمٹانے میں دلچپی لی اور عدلیہ کی آزادی پر اصرار کیا۔