اگر اقوام متحدہ کاعالمی فورم انسانی حقوق کی پامالیوں کا سچ مچ میں خاتمہ چاہتا ہوتاتو وہ فلسطین اور کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عمل کرکے دکھاتا ۔اقوام متحدہ کے نام سے موسوم سب سے بڑایہ عالمی فورم پوری چھان پٹھک کے ساتھ تسلیم کرچکا ہے کہ بھارتی قابض افواج کی طرف مسلسل مقبوضہ کشمیرمیں بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، اقوام متحدہ اس امرکوگزشتہ 30برسوں سے لگاتاردیکھ رہاہے کہ کس طرح وحشیانہ طریقے سے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں پر فائرنگ کر کے خون بہایا جا تا ہے، کس بہیمانہ انداز سے حراستی قتل ، جبری گمشدگیاں ، اجتماعی عصمت ریزیاں اور کونٹر انسرجنسی آپریشنوں کی آڑ میں انسانیت کو پامال کیا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ اس امرکوخوب جانتاہے اوراس پرگواہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی صورت میں سب سے بڑا انسانی حق جو کشمیریوں سے 1947 ء سے آج تک چھینا جا چکا وہ ہے ’’ حق خود ارادیت‘‘ ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ کشمیر، فلسطین عراق اور افغانستان کی بدترین صورتحال اس امرپرگواہ ہے کہ UNکے نام سے جانے جانے والایہ عالمی فورم اس طرح کا رول نبھانے کیلئے کبھی تیار ہوسکے گاہرگز نہیں کیونکہ امریکہ کی سرپرستی میںصاف طور پراس کی کوششیں انصاف قائم کرنے کے بجائے دنیا کو ظلم کے اندھیروں میں دھکیل دینے کیلئے نظر آرہی ہیں۔ انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا خاتمہ تب تک ہرگز ممکن نہیں جب تک یہ عالمی فورم اپنے موجودہ کردار پر نظر ثانی نہیں کرتا۔اگراقوام متحدہ اپنی موجودہ روش کو اسی طرح برقرار رکھے تو پھر 10دسمبریوم حقوق انسانی منانا مظلوم قوموں کے زخموں کوجان بوجھ کر کریدنے کے مترادف ہو گا وہ مسلسل پیج وتاب کھاتے رہیں،انگاروں پر لوٹتے رہیں۔ اگر کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کے لئے یہ عالمی فورم آج تک پوری یکسوئی،دلسوزی اور سنجیدگی کے ساتھ آواز اٹھا تا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیریوں کو مظالم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھٹکارا مل چکا ہوتا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس عالمی فورم کاطرزعمل یہ ہے کہ ا ولاًوہ ظالم اورمظلوم کو ایک ہی ترازو میں تول لیتاہے ،ثانیاً ظالم حکومتوں کیخلاف بین الاقوامی سطح پر کوئی راست اقدا م نہیں اٹھاتا۔اس کے اس طرزعمل کے باعث تمام عالمی حقوق کی تنظیموں کی کارکردگی بھی صفرکے برابرہے اور مظلوم عوام کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے بد قسمت لوگ جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں جن کے عزیز و اقارب یا تو قتل کر دئیے گئے ہیں یا پھر لاپتہ ہیںدنیا بھر میں ان مقتولین اور لا پتہ کئے جانے والوں کی بیوائیں اور یتیم بچے انصاف کے لئے مسلسل پکار رہے ہیں ۔ دیگر خطوں کی طرح فی الحقیقت مقبوضہ کشمیرمیں بھی بغیر حد و حساب ہر طرف انسانیت سوزکاروائیوں پر مشتمل واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ ان واقعات کوترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کے دائرے میں لایا جائے ۔کالے اورجابرانہ ایکٹ’’ افسپا‘‘کے بے رحمانہ اور بہیمانہ استعمال کے ذریعہ نہتے کشمیری مسلمانوں کو مسلسل تذبذب کا شکار بنا کر ان کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ۔ اقوام متحدہ کا ظالم حکومتوں کے سرکاری موقف کی تائید کرنا اورمظلوم قوموں کے بنیادی حق کے مطالبے سے اُن کا گریز اور جرأت اظہار سے خوف کھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے وہ مصلحت کی اسیر ہے،اگرچہ کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پراس فورم نے اپریل 2018میں ایک رپورٹ کے ذریعے کشمیرمیں بڑے پیمانے پرہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرصدائے احتجاج بلند کی اور بھارت سے رپورٹ مرتب کے والے ڈیپارٹمنٹ کا اصرار رہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری کی جائے لیکن اس کے باوجود بھارت محض اس لئے ٹال مٹول سے کام لیتا رہاکہ یہ عالمی فورم اس کاکچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا۔ اقوام متحدہ جیسے بڑے عالمی فورم کا مجرمانہ اورشرمناک طرزعمل کوایک طرف افسوس کہ دنیابھرکی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی سفاک حکومتوں کے خلاف کوئی طوفان برپانہیں کرپاتیں۔ یہ ضرور ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کئی مرتبہ اپنی رپورٹس مرتب کر چکی ہیں مگر بھارت انکے ساتھ حقوق انسانی کی صورتحال پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور وہ کسی قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔اس کے باوجود ان تنظیموں کے ارکان گاہے بگاہے جب کشمیر کا دورہ کرتے ہیں تو اپنے دورہ کشمیر کے دوران انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء ، صحافیوں، سول سوسائٹی ممبران اور انسانی حقوق کے حوالے سے متاثرین کے ساتھ بات چیت کرتے رہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر میں اپنی سر گرمیاں جاری رکھنا چاہتی ہے یہ تنظیمیں آرمڈ فورسز سپیشل پائورز ایکٹ’’افسپا‘‘ اور گمنام قبروں جیسے معاملات پر کام کرنا چاہتی ہیں۔ گم شدہ افراد پر کام کرنے والی کولیشن آف سول سوسائٹیز نامی انسانی حقوق کی انجمن نے 2008 ء میں وادی اور جموں کے پیر پنجال علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں گمنام قبروں کی موجودگی کا انکشا ف کیا توان اس پورے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیاگیا۔لیکن اس کے بعد پھر یہ تنظیمیں خاموش ہوجاتی ہیں۔جس کے باعث ان کی ہوااکھڑ جاتی ہے۔حقوق البشرکے تحفظ کیلئے کام کرنے کادعویٰ رکھنے والی ان دو تنظیموںنے کشمیر میں کشمیریوںکو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند رکھنے کے معاملے پراپنی آوازضرور بلند کی۔اُنہوں نے رپورٹ کیاکہ کالے قوانین کی آڑ میں اکثرکشمیریوں کو بلا لحاظ عمر و جنس قتل کیا جاتا ہے اور یہ کہ جموں اور کشمیر میں فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات کی وجہ سے حقوق انسانی کی پامالیاں بڑے پیمانے پر رونما ہورہی ہیںجن میں قابض فورسز کے ہاتھوںحراستی شہادتوں،اجتماعی عصمت دری،دوران حراستی گمشدگی،اجتماعی قتل،بلاجواز گرفتاریاں، املاک کے اتلاف کے واقعات قابل ذکر ہیں۔تاہم رونااس بات کاہے کہ انسانی حقوق کی یہ عالمی تنظیمیں عالمی سطح پربھارت کے خلاف رائے عامہ ہموارنہ کرپا رہی ہیں کہ ہندورام راج خوفزدہ ہوکرکشمیریوں کے حق خودارادیت کوتسلیم کرلے اور کشمیریوں کوان کاحق دینے کے لئے آمادہ ہوجائے۔