معزز قارئین!۔ پنجاب یونیورسٹی میں 550 غیر قانونی بھرتیاں کرنے پر سابق چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور یونیورسٹی کے پانچ "Registrars" ڈاکٹر اورنگ زیب عالمگیر، ڈاکٹر لیاقت علی ، ڈاکٹر راس مسعود، ڈاکٹر امین اطہر اور ایڈیشنل رجسٹرار ڈاکٹر کامران عابد کو لاہور کی احتساب عدالت میں ہتھکڑیاں لگا کر پیش کرنے اور سب ’’ پی۔ ایچ ۔ ڈی‘‘ ڈاکٹروں کو الیکٹرانک میڈیا پر دِکھائے جانے پر پورے ملک میں "N.A.B" کی مذمت کی گئی ۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی طرف سے از خود نوٹس لئے جانے کے اور نیب کے "D.G" (ڈائریکٹر جنرل) نیبؔ سلیم شہزاد اور دیگر افسران نے 13 اکتوبر کو تحریری معافی مانگ لی۔ اِس سے قبل چیف جسٹس صاحب نے گرفتار کئے گئے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ مَیں اساتذہ کی بے حُرمتی برداشت نہیں کروں گا۔ آپ اساتذہ سمیت پوری قوم سے معافی مانگیں! ‘‘ ۔اِ س پر ڈی۔ جی۔ سلیم شہزاد کی آنکھوں میں آنسو آگئے تو چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ اب آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟۔ آپ نے کِس قانون کے تحت اساتذہ کی تضحیک کی؟‘‘۔

معزز قارئین!۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس صاحب کو پنجاب یونیورسٹی میں 550 غیر قانونی تقرریاں کرنے پر ڈاکٹر مجاہد کامران اور یونیورسٹی کے پانچ رجسٹرار صاحبان کے خلاف مقدمہ درج پر تو کوئی اعتراض نہیں ، البتہ انہیں ہتھکڑیاں لگا کر اُن کی تضحیک کرنے کا بجا طور پر بُرامنایا اور اِس لئے برہمی کا اظہار بھی کِیا؟۔ ڈی ۔ جی سلیم شہزاد نے چیف جسٹس صاحب کو بتایا کہ ’’ نیب نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ڈاکٹر مجاہد کامران اور دوسرے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگائی تھیں اور مَیں نے خود جا کر اُن سے معافی مانگ لی تھی!‘‘۔ 

چیف جسٹس صاحب نے نیب کی طرف سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دوسرے سابق اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر اُن کی تضحیک کرنے پر برہمی کا اظہار کر کے بہت اچھا کِیا، ہمارے معاشرے میں استاد کو باپؔ کا درجہ دِیا جاتا تھا/ ہے۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ’’ مُرشد اور استاد بھی اپنے مُرید/ شاگرد کا باپ ہوتاہے‘‘۔ اُن کی ایک فارسی نظم کے ایک مصرعے میں باپ (پِدر) کی حیثیت سے مُرشد نے اپنے مُرید کو جانِ پدؔر ( باپ کی جان) قرار دیتے ہُوئے کہا تھا …

با مُریدے گُفت ’’ اے جانِ پدر!‘‘

ہندوستان میں انگریز حکومت کی طرف سے علاّمہ اقبالؒ  کو خط لِکھا گیا کہ’’ ہماری حکومت آپ کو"Sir" کا خطاب دینا چاہتی ہے؟۔ کیا آپ راضی ہیں؟‘‘ جواب میں علاّمہ صاحب نے لِکھا کہ ’’ مَیں راضی ہُوں لیکن اِس سے پہلے آپ کو میرے پرائمری کے اُستاد مِیر حسن صاحب کو ’’ شمس اُلعُلمائ‘‘  کا خطاب دینا ہوگا؟‘‘۔ حکومت نے مِیر حسن صاحب کو ’’ شمس اُلعُلمائ‘‘  کا خطاب دِیا تو علاّمہ اقبالؒ نے بھی "Sir" کا خطاب قبول کرلِیا۔ ایک فارسی ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ شاگرد ، رفتہ ، رفتہ ، اُستاد می شوَد !‘‘۔ یعنی طالبِ علم آہستہ آہستہ خُود اُستاد بن جاتا ہے ‘‘۔ اُستادؔ ۔ فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ جِس کے معنی ہیں ۔ مَُعلّم آزمودہ کار کاملِ فن۔ چالاک اور عیار شخص کوبھی اُستاد ؔکہتے ہیں ۔ اُستاد شاعر ، کیفؔ دہلوی نے کہا تھا کہ …

کیوں نہ صیّاد مَلے ہاتھ اسِیروں کے لئے؟

لے گیا صاف اُڑا کر کوئی اُستاد ؔاُنہیں!

احباب بے تکلف سے یار کوبھی اُستادؔ کہا جاتا ہے ۔ مرزا داغؔ دہلوی نے ناصح سے مخاطب ہو کر کہا تھا …

تُو بھی اے ناصح! کِسی پر جان دے!

ہاتھ لا اُستادؔ کیوں کیسی کہی؟

علاّمہ اقبالؒ کے دَور میں جب، اُستاد اور شاگرد کا مُقدّس رشتہ بدل گیا تو اُنہوں نے کہا کہ …

تھے وہ بھی دِن کہ خدمتِ اُستاد کے عوض!

دِل چاہتا تھا ہدیۂ دِل پیش کیجئے!

…O…

بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پسِ سبق!

کہتا ہے ماسٹر سے کہ بِل پیش کیجئے!

اور اُس کے بعد کے استادوں کے بارے میں اپنی مختصر نظم ’’ اساتذہ‘‘ میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ …

مقصد ہو اگر تربیت لعل بدخَشاں!

بے سود ہے بھٹکے ہُوئے خورشید کا پر تَو!

…O…

دُنیا ہے روایات کے پَھندوں میں گرفتار!

کیا مدرسہ کیا مدرسہ والوں کی تگ و دَو!

…O…

کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت!

وہ کُہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پَیرو!

’’شارح اقبالؒ  ‘‘ مولانا غلام رسول مہر ؔ نے اِس نظم کی شرح بیان کرتے لِکھا کہ ’’ -1  اگر سورج سیدھے راستے سے بھٹک جائے تو اُس کی روشنی بدخشاں کے لعل کی تربیت نہیں کرسکتی؟۔ یعنی ایسے اُستادؔ جو اِسلام کی راہ سے دُور ہوں ، طلبہ کی صحیح تربیت کیوں کر کر سکتے ہیں؟۔ -2  دُنیا روایات کے جال میں پھنسی ہُوئی ہے ۔ درس گاہوں اور اُن کے استادوں کی دُوڑ دھوپ کچھ معنی نہیں رکھتی، یعنی اساتذہ لکیر کے فقیر ہیں ۔ اُنہیں تحقیق و اجتہاد کی ہَوا تک نہیں لگی۔ تلاش حق ناپَید ہے۔ اِس صورت میں اساتذہ طلبہ کی تربیت کیا کرسکتے ہیں ۔ -3  جو لوگ زمانے کی رہنمائی کا فرض انجام دے سکتے تھے ، وہ اپنے ہی زمانے کے پَیرو بنے ہُوئے ہیں ۔ یعنی جن لوگوں میں یہ صلاحیت تھی وہ کتاب و سُنت پر عمل کر کے دُنیا بھر کے امام بنیں ، وہ لکیر کے فقیر ہو کر دور حاضر کے اوہام میں پھنسے ہُوئے ہیں ۔ پھر ایسے لوگ کیوں کر قوم کو صراط مستقیم پر لگا سکتے ہیں ؟‘‘۔

علاّمہ اقبالؒ حیات ہوتے تو دیکھتے کہ اُن کے پیارے پاکستان میں کُہنہ دماغ اساتذہ کے قائم کئے گئے۔ مدرسوں میں ’’ مطالعہ پاکستان‘‘ کا مضمون ( سرسیّد احمد خان سے لے کر قائداعظمؒ تک اسلامیانِ ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد کی داستان) کبھی نہیں پڑھایا گیا؟۔اپنی نظم ’’ ساقی نامہ ‘‘ میں علاّمہ اقبالؒ نے اُس دَور کے مسلمانانِ عالم کے غیر اِسلامی اعمال و مشاغل کا ماتم کرتے ہُوئے ’’ساقی ٔ کائنات ‘‘  (ذاتِ باری تعالیٰ ) سے دِل سَوز دُعا کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …

خِرد کوغُلامی سے آزاد کر!

جوانوں کو پِیروں کا اُستاد کر!

لیکن کیا کِیا جائے کہ آج کے دَور میں علاّمہ اقبالؒ کے پاکستان میں جوانوں (شاگردوں ) کو پِیروں ( اساتذہ ) کا اُستاد بنائے کوئی نظام قائم نہیں ہے ؟ توپھر کیا جوان ( شاگرد ) پِیروں ( اساتذہ ٔ کامل) کی تلاش کے لئے آسمان کی طرف دیکھیں؟۔ معزز قارئین! ۔ 12 اکتوبر کوجب نیب نے ڈاکٹر مجاہد کامران اور پنجاب یونیورسٹی کے 5 ڈاکٹر اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر  احتساب عدالت کی طرف سے اُن کا 14 دِن کا جسمانی ریمانڈ دِیا جا رہا تھا تو روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ اور دوسرے اخبارات کے مطابق عدالت سے باہر پنجاب یونیورسٹی ہی کے اساتذہ اور وُکلاء کی کثیر تعداد موجودڈاکٹر مجاہد کامران اور اُن کے گرفتار ساتھی یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار صاحبان کے خلاف نعرے لگارہے تھے؟۔

اِس لحاظ سے ڈاکٹر مجاہد کامران اور پنجاب یونیورسٹی اُن کے 5 ساتھی رجسٹرار صاحبان کو پنجاب یونیورسٹی میں 550 غیر قانونی بھرتیوں کے مقدمے میں پیش تو ہونا پڑے گا؟۔ حیرت ہے کہ اِس سے پہلے نیب والوں نے کرپٹ ؔترین سیاستدانوں کو ہتھکڑیاں لگا کر الیکٹرانک میڈیا پر اُن کی تضحیک / نمائش کبھی نہیں کی؟۔ اُستاد شاعر ’’پہلوانِ سُخن ‘‘ امام بخش ناسخ ؔسَیفی نے نہ جانے اپنے کِس جُرم کا اعتراف کرتے ہُوئے کہا تھا…

ہتھکڑی پہنی ہے مَیں نے ایک مدت ہاتھ میں!

قانون کے مطابق جب تک ملزم کسی عدالت سے باقاعدہ با عزت بری نہ ہو جائے ، معاشرہ اُسے مشکوک ہی سمجھتا ہے۔ عاشق ؔاُستاد شاعر شادؔ لکھنوی کے دَور میں "N.A.B" کا ادارہ موجود نہیں تھا۔ جب اُنہوں نے کہا کہ …

رُسوائے عشق کے لئے ہے تنگ زندگی!

پَیوند خاک میں جو ہُوا عَیب ڈھک گیا!

اِس کے باوجود ڈاکٹر مجاہد کامران اور اُن کے ساتھی ڈاکٹروں کو ہتھکڑیاں لگا کر اُن کی تضحیک کرنا نیب ؔکا عیب ؔتھا/ہے۔ لارَیب ۔ نَیب ؔکا عیبؔ ہے؟۔