صبح سے رات گئے تک ہم سب اسی کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اضطراب بے چینی اور بے تابی کی لہریں کیوں اٹھتی نظر آ رہی ہیں، میں ہر تجزیے اور کالم کو اس نظر سے پڑھتا ہوں کہ لکھنے والے نے یہ کیوں لکھا کیا لکھا اور کس انداز سے لکھا۔یہ سوالات آپ کے لئے بہت بچگانہ نہ سہی لیکن میرے لئے بہت کارآمد ہیں۔میں سوچتا ہوں کہ دلوں اور ذہنوں میں یہ ہنگامہ خیزی کیسی‘ جن سے ایسے غیر یقینی کے طوفانوں کو برپا ہوتا دیکھ کر اس ملک کی سیاسی اور سماجی تاریخ میرے آنکھوں کے سامنے ایک فلم کے پردے پر ناچتی دکھائی دیتی ہے۔یہ چھوڑیں کہ زرداری اور نواز شریف دبئی میں ملک کی کن سیاسی گتھیوں کو سلجھا رہے ہیں۔نواز شریف کب وطن لوٹیں گے؟عمران کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدالتی کوریڈوز میں کیا چل رہا ہے؟ ان کے کیا تیور ہیں؟لیکن میں سوچتا ہوں کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جس کی 75سالہ سیاسی سماجی تاریخ جو واقعاتی شہادتیں رکھتیں ہیں۔لفظ بہ لفظ سچی ہے اور روز اول سے جاگیردارانہ نظام کی آہنی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ہندوستان نے آزادی کے فوراً بعد 1948ء ہی میں جاگیردار اور جاگیردارانہ نظام سے نجات پائی تھی۔یہ کام یوں تو پاکستان میں بھی ہوا۔لیکن ایسے نام نہاد اور مکارانہ انداز میں کہ جاگیردارانہ نظام کی جڑیں کچھ اور بھی مضبوط ہو گئیں۔معاشی و سماجی بے اعتدالیاں‘ بدعنوانیاں‘ ناہمواریاں اور ناانصافیاں اس تیزی اور طاقت کے ساتھ آگے بڑھیں کہ پاکستان کا جغرافیائی حلیہ اور آئینی ڈھانچہ تک باقی نہیں رہا۔انتظامیہ ‘ مقننہ اور عدلیہ کے ادارے ایسے افراتفری کا شکار رہے کہ ملک کے سیاسی استحکام اور عوامی فلاح و بہبود کے بنیادی سوال کا کسی کو ہوش نہ رہا۔اگر ہوش رہا تو ذاتی مفادات کا‘کینہ پروری کا‘ برادری کی طرفداری کا‘ نفع خوری‘ عیش کوشی کا جلد سے جلد امیر سے امیر ترین بن جانے کا‘ ملک کے خزانے کو ذاتی دولت خانہ بنا لینے کا اور اپنے آپ کو دوسروں سے بہرحال برتر و طاقتور دیکھنے کا‘ یہ ہیں معاشرے کے وہ حاوی رجحانات جو پاکستانی قوم اور افراد قوم‘ دونوں کو کھائے جا رہے ہیں اور شرم و افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سماجی برائیوں کے مہلک ہونے کا کسی فرد یا جماعت کو احساس بھی نہیں ہے۔ میں عموماً سوچتا ہوں کہ ہم نے ماضی میں جو کچھ کیا ہم نے کر دیا، ہمیں بہرحال اب سنبھل جانا چاہیے لیکن ہم اپنی ڈگر سے ہٹ نہیں رہے۔میں سوشل میڈیا پر نظر ڈالتا ہوں، تو سیاسی میدان میں لگے تماشے دیہاڑی لگانے کے لئے وافر مواقع فراہم کر رہے ہیں۔پھکڑ پن‘ جھوٹ اور فیک اسٹوریز کی گنجائش نکل آئی ہے اور ایک فوج ظفر موج کو سوشل میڈیا سے لائیکس اور شیئرز کے حصول کی ہوس کو تسکین مل جاتی ہے۔ہر کوئی اپنی دانشوری جھاڑ رہا ہے ہر روز اپنی پہلے کہی گئی خبر کی تردید کر دیتا ہے اور پھر نئی شرلی چھوڑ دیتا ہے اس سرپٹ دوڑتے رجحان نے عام لوگوں کو صرف کنفیوژ کیا ہے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان لوگ یہ کہہ کر ہمیں ڈراتے رہتے ہیں کہ آگے موڑ ہے۔سڑک بھی تنگ اور موڑ بھی خطرناک کھائی ہے سامنے پتھریلی چٹان ہے ہماری گاڑی پہلے بھی کن حادثات کا شکار ہوتی رہی ہے، اس جادو اثری کے نتیجے میں ہم سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ایوانوں کے وسیع و عریض ایئر کنڈیشنڈ ہالوں میں آرام دہ ریوالونگ چیئرز پر جھولتے ہوئے ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں بتا رہا کہ جس بھنور میں ہم پھنستے چلے جا رہے ہیں، اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہے ،یہ سب آپس میں الجھ رہے ہیں۔ایک دوسرے کو زیر کرنے کی فکر میں ہیں، ایک دوسرے کی شکل دیکھنے سے گریزاں ہیں، کوئی حقیقت پسندی اور عملیت پسندی سے حقیقی بنیادی مسائل کا حل پیش نہیں کر رہا۔محض دلکش نعرے لگانے سے اگر قوم آگے بڑھ سکتی تو ہم اس حشر گو نہ پہنچنے۔قوم کو تلخ حقائق بتائیں ان تاریک پہلوئوں کو اجاگر کریں۔جو عام آدمی کی نظروں سے اوجھل ہیں۔اگر آزادی اور انقلاب کے نعرے ہمارا مقدر بدل دیتے تو ہم اس زوال کی منزل پر نہ پہنچتے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان قوم کو اندھیروں میں رکھنا پسند کرتے ہیں، اس لئے ملک کی پوری تاریخ سیاسی اتھل پتھل سے بھری پڑی ہے، ہم نے 16دسمبر 1971ء کو تاریخ کا وہ موڑ بھی دیکھا، جس نے اس قوم کو دو حصوں میں منقسم کر دیا۔ہماری من حیث القوم سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم حقائق کو چھپاتے ہیں تسلیم نہیں کرتے۔اس لئے بے شمار سماجی‘ اخلاقی اور معاشرتی برائیوں نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔یاد رکھیں صرف اچھے عہد کر لینے سے خوش حالی نہیں آ جاتی بلکہ خوش حالی ایک اچھے عہد کے ساتھ عمل کرنے سے آتی ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا یہ کھیل جو وہ مسلسل اور تواتر سے کھیلتے آ رہے ہیں، انہوں نے ہوس اقتدار کے لئے کھیل ہی کھیل میں ساری قوم کو بھوک افلاس بیماری بے روزگاری اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ عموماً نئی سوچ و فکر جنم دینے والوں کو پرانی اور فرسودہ سوچ اور فکر رکھنے والے اداروں اور قوتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات انہیں روایتی سوچ اور فکر رکھنے والے افراد اور قوتوں کے آگے سرنڈر کرنا پڑتا ہے ،جیسا کہ سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔کہ وہ نہ کہو جو ہم سننا نہیں چاہتے۔ لیکن ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی سقراط پیدا نہیں ہوا جو سچ کو سچ کہے حق گوئی بے باکی سے تعبیر ہے اور سچ بولنے اور سچ لکھنے والا اگر تحفظات سے کام لے تو پھر وہ سچ بیان نہیں کر سکتا‘ اگر مگر اور لیکن کے ساتھ صداقت کا بیان ممکن ہی نہیں ،سچ بے دھڑک اور بے خوف بیان ہو سکتا ہے وگرنہ نہیں اور سچ یہ ہے کہ ہم بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی جانب کھسک رہے ہیں، اس کے ذمہ دار 75سال میں حکمرانی کرنے اور اختیار کے حامل سب ہی لوگ ہیں، اسے آپ بین الاقوامی پس منظر میں دیکھیں تو بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے ٹرمپ اور بائیڈن کا امریکہ‘ پیوٹن کا روس‘ بادشاہوں کا سعودی عرب اور ساتھ ساتھ رنگ برنگی جمہوریت سے آراستہ جمہوری پاکستان اب ہر طرف کنٹرول کنٹرول کھیلا جا رہا ہے۔18ویں صدی سے شروع اور ان تین صدیوں میں انسان نے خود کو غلامی معاشی بندھنوں سیاسی پابندیوں اور سماجی زنجیروں سے آزاد کرا لیا۔بیسویں صدی میں 100سے سے زائد ممالک میں جمہوری نظام آیا۔ملک آزاد ہوئے انسان خود مختار ہوئے قوموں نے اپنی اپنی تاریخ بنائی۔آج ایک طرف امریکہ ہے تو دوسری طرف چین‘سمیت ترکی اور ملائشیا ہے ساتھ ساتھ سعودی عرب ہے۔افسانوی کردار ارطغرل ہمارے لئے انسپائریشن کی علامت ہے دوسری طرف دیومالائی کردار اردگان ہے اور ایک طری شاہ سلمان اور محمد بن سلمان ہیں۔آج ہمارے سامنے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے قرضوں کا حصول بہت بڑا سنگ میل ہے دوسری طرف چین کے مالیاتی ادارے ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں مستقبل قریب میں ہمیں اس میں توازن رکھنا ہو گا ایک سمت کا تعین کرنا ہو گا ہماری معاشی گاڑی امریکی سڑکوں پر موٹر ویز پر سفر کرتی رہی ہے ہمیں مالیاتی اعتبار سے چین سے واسطہ نہیں پڑا۔اس کے باوجود کہ چین اور سعودی عرب ہمیشہ ہماری مدد کرتے رہے لیکن ہمارا زیادہ انحصار امریکہ اور اس کے زیر اثر مالیاتی اداروں پر رہا۔ایسا لگتا ہے کہ ہم نے افغان جنگ میں کودنے سے پہلے اس کے اسباب و علل اور نتائج کا پوری طرح جائزہ نہیں لیا، اب ہمیں سیاسی معاشی اور قومی خود مختاری کے بچائو کے ساتھ ساتھ پھر کسی اور جنگ میں الجھنے سے دور رہنا ہو گا۔ایک نئی عالمی بساط بچھ رہی ہے، ایک نیا روڈ میپ بن رہا ہے۔اب غلطی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔دراصل ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں حکمران تو ملتے رہے لیکن لیڈر نہیں ملا۔اگر ہمیں اب بھی ہوش نہ آیا تو یہ بڑی بدقسمتی ہو گی۔