کوئی نہیں جانتا کہ جو چار اطراف ہنگامہ آرائی ‘ شورو غوغا اور اتھل پتھل ہے اس کی تہہ سے اچھل کر کیا نکلے گا اور گنبد نیلو فری رنگ بدلے گا بھی یا سب کچھ ویسا ہی اسی حالت میں رہے گا جیسا کہ ہے۔ اب سے نہیں صدیوں سے وہی ظلم و استحصال کا پرانا‘ فرسودہ نظام‘ وہی نابرابری اور عدم مساوات‘ وہی حیلہ پرویزی اور وہی بے بسی اور ناطاقتی عوام کی جو کروڑوں میں ہیں مگر سطح سمندر پر ابھر کر مٹ جانے والے بلبلوں کی طرح فنا پذیر اور غیر اہم۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا اس لیے کہ کروڑوں میں ہو کر بھی وہ اپنی طاقت سے ناآشنا اور بے خبر ہیں یا اس لیے کہ ناخواندہ ‘ ناتربیت یافتہ ‘ عقل و شعور سے محروم ‘ اپنی روزی روزگار کے بوجھ تلے دبے اور حالات کے ستم رسیدہ اور طاقتوروں کی طاقت سے خوف زدہ روتے دھوتے وعدہ فراموشوں کے جھوٹے وعدوں پر یقین کر کے انہیں اپنے ناتواں کندوں پر بٹھا کر ان کے ناپاک وجود کو اٹھا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے والے ہیں ۔خود اپنے ہی عمل کی معنویت سے بے خبر اور ان کے دکھ درد کا غم کھانے والے دانش ور‘ تجزیہ کار ہم جیسے کالم نگار ہمہ وقت گھٹیا ایشوز پر‘ سیکس اسکینڈلز پر ازدواجی جھگڑوں کی مکروہ تفصیلات پر اور ’’کتاب‘‘ کے نام پر مقدس کتاب جو انسان پر علم و عقل کے دروازے کھولتی ہے جو وجود انسانی اور کائنات کی حقیقت پر غور کرنا سکھاتی ہے جو کہتی ہے روشنی سے نہ ڈرو کہ تم ہی روشنی ہو۔ زندگی سے نہ گھبرائو کہ تم ہی زندگی ہو ہاں اسی کتاب کی متعفن معلومات اور لرزہ خیز انکشافات کو ایسا بنا دیا جائے جیسے کتاب نہ ہو کسی غلیظ گٹر کا ڈھکن ہو کہ اٹھاتے ہی جس کو سارا ماحول بدبودار ہو جائے۔ جسے کوئی باحیا گھرانہ مل کر پڑھنا تو درکنار‘ اس کے مندرجات کی رتی بھر تفصیل سے بھی آگاہ نہ ہو سکے کہ آنکھیں شرم سے جھک جائیں اور حیا کہیں ہو تو منہ چھپا کر نکل جائے۔ہاں ایسی ہی کتاب اگر اسے کتاب کہا جا سکے (مولانا حالی ہوتے تو اسے عفونت میں سنڈاس سے بھی بدتر قرار دیتے) تو اس کی بابت میڈیا مصنفہ کی بھڑک دار تصویروں کے ساتھ پوز بدل بدل کے‘ مختلف زاویوں سے ایسا کہ جیسے ملکہ مصر قلو پطرہ نے کوئی کتاب انتونی اور جولیس سیزرکے متعلق لکھ دی ہو۔ وہی قلو پطرہ جو ہر رات اپنے عاشق کو سانپ سے ڈسوا کر مروا دیتی تھی۔ وہ قلو پطرہ مری نہیں‘ نئے قالب میں‘ وجود کے نئے لباس میں آ گئی ہو ہمارے درمیان۔ سحر زدہ کرنے کے لیے حیا ‘اخلاق ‘مروت ‘ شرم‘ جھجک اور وہ اوصاف وضع داری کے جو ہماری تہذیب و معاشرت کا جزو تھے‘ کہاں اور کیوں اور کیسے رخصت ہوئے۔ گلا شکوہ قلو پطرہ سے نہیں۔ سوال تو ان سے ہے جو ایسے آبرو باختہ انکشافات و معلومات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ان کا پرت پرت اٹھا کر اور ہٹا کر اصل حقائق کے متلاشی ہیں جس کی تہہ میں گندگی اور تعفن کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ کیا یہی ہیں وہ اہم ترین قومی ایشوز کی عکاسی جن کو سامنے لانا میڈیا کی بنیادی ذمہ داری ہے؟ جس کتاب کی اشاعت کے لیے مغرب کا کوئی ناشر تیار و دستیاب نہ ہو‘ اس کتاب کو موضوع بحث بنانا‘ اس کے مندر جات و مشتملات کو ٹیلی وژن اسکرین اور ٹاک شوز کا موضوع بنانا بھلا یہ کیسی صحیفہ نگاری اور کون سی برقیاتی ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری ہے؟ ہاں وہ قلم کہ جس قلم کے تقدس کی خداوند تعالی نے قسم کھائی ہو کہ ‘قسم ہے قلم کی جس سے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ قلم اور علم جو خدا ہی کی عطا ہیں تاکہ انسان وہ جانے جو وہ پہلے نہ جانتا تھا یہ قلم اگر متعفن سنڈاس میں ڈبو کر اس سے غلیظ معلومات کا افشا کیا جائے تو کیا یہ محض اس لیے قابل بحث اور لائق تذکرہ ہو جاتا ہے کہ اسے قلم سے لکھا گیا۔؟ یا اسے نظر انداز کر دینا اس کا بلیک آئوٹ کر دینا اور ایسے انجان و اجنبی بن جانا جیسے کچھ کیا ہی نہ گیا ہو‘ لکھا ہی نہ گیا ہو۔ ہاں قلم کا تقدس اسی رویے اور اسی ردعمل کا تقاضا کرتا تھا لیکن ہو کیا رہا ہے؟ اس سارے تعفن کو دکان داری چمکانے کا ذریعہ بنا لیا گیا ۔ریٹنگ کی دوڑ آخر یہ دوڑ ہے کس سمت؟ ذہنی افلاس‘ اخلاق باختگی اور ماحولیات کو مکروہ بنانے کی طرف نہیں؟ ذرا سوچیے تو سہی ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ ہم کس طرف لے جائے جا رہے ہیں۔ ہاں ایسے بھی ‘ بے شک ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کتاب پر جو ابھی چھپی ہی نہیں تبصرہ کرنے سے معذرت کر لی۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے کہا کہ اگر کتاب میں یہ سب کچھ نہ ہوا‘ جسے اچھالا جا ہا ہے تو ذمہ دار کون ہو گا؟ تو اصل کلیدی لفظ یہی ’’ذمہ داری‘‘ ہے احساس ذمہ داری جس کے بغیر اگر تصرف کے ساتھ کہوں تو کہنا پڑتا ہے دل پر پتھر رکھ کے کہ آزادی اظہار ہے ابلیس کی ایجاد؟ میڈیا کی آزادی کے ساتھ یہ احساس دن بدن تقویت پاتا جاتا ہے کہ آزادی بھی دو دھاری تلوار ہے جس کا استعمال احساس ذمہ داری کے ساتھ نہ کیا جائے تو یہ دو دھاری تلوار دوسروں کو بھی اور خود اسے بھی زخمی کر دیتی ہے جو اسے رکھتا ہے۔ میڈیا کو یہ آزادی نہیں بھولنا چاہیے کہ طشت میں سجا کر پیش نہیں کی گئی۔ اس آزادی کے لیے طویل لڑائی لڑی گئی ہے صحافیوں نے نام نہاد جمہوری دور میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلی ہیں اور بدترین آمریت میں کوڑے کھائے ہیں اور کچھ تو وہ بھی ہیں جنہوں نے قلم پر پہرے دیکھے تو قلم و قرطاس ہی کو سلام کر کے اس پیشے سے نکل گئے کہ نوکری تو کہیں بھی کی جا سکتی ہے اس قلم اور کیمرے کو آزادی نصیب ہوئی ہے تو شتر بے مہار تو نہ ہونا چاہیے کہ ایک بار پھر کسی طالع آزما کو یہ کہہ کر آزادی اظہار معاشرے اور عوام کے لیے مہلک ہے۔ وہ پھر اس آزادی کو ضبط کر کے کسی کو بھی اپنی طاقت پر ناز نہ ہونا چاہیے۔ چاہے میڈیا ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ طاقت پر ناز اور اسی پر انحصار خود طاقت ہی کی تباہی اور اسی اختیار و اقتدار کی سلبی پر منتج ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے تاریخ سے چاہے کوئی سبق لے نہ لے لیکن تاریخ جن قوانین کے تابع ہے ان ہی کے تحت خود کو دہراتی چلی آ رہی ہے۔ معاشرے کی تہذیبی روایات کو ’’سنسنی خیزیت‘‘ اور گلیمر کی چکا چوند کے تحت خطرات سے یہاں تک کہ تباہی سے دوچار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنے بیانیے کو شائستگی وقار اور غیرت و حمیت سے آراستہ رکھنا چاہیے یہی علم سکھاتا ہے اور اسی کی تعلیم قلم دیتا ہے۔ خدارا ! قلم اور علم کے تقدس کا تو خیال رکھیے کہ یہی آپ کا اور ہمارا ذریعہ رزق ہے اور رزق بھی پاک و محترم ہے اور ہونا چاہیے۔