سانحہ بلدیہ ٹائون‘ عزیر بلوچ اور نثار مورائی کے حوالے سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقاتی رپورٹ حکومت سندھ نے جاری کی تو میڈیا پر بحث یہ شروع ہو گئی کہ وفاقی وزیر علی زیدی نے جو رپورٹیں قومی اسمبلی میں لہرائی تھیں وہ اصلی ہیں یا حکومت سندھ کی جاری کردہ؟دونوں کے نفس مضمون میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں کہ علی زیدی کی بیان کردہ رپورٹوں میں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنمائوں کے نام شامل ہیں جو عزیر بلوچ کی سرپرستی کرتے رہے جبکہ حکومت سندھ کی جاری کردہ رپورٹس ان ناموں سے مبّرا ہیں۔ لیکن دونوں رپورٹوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ جملہ جرائم حکومت سندھ کی موجودہ اور سابقہ حکومت کی آنکھوں کے سامنے ہوتے رہے‘ حکومت میں شامل طاقتور افراد ازقسم ذوالفقار مرزا وغیرہ جرائم پیشہ گروہوں کے پشتی بان تھے‘ سانحہ بلدیہ ٹائون میں ملوث ایم کیو ایم کے لیڈر جنرل (ر) پرویز مشرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے دور حکمرانی میں دونوں جماعتوں کے بااعتماد حلیف تھے اور صوبے کی بیورو کریسی و پولیس قتل و غارت گری‘ بھتے خوری‘ اغوا برائے تاوان ایسے سنگین جرائم کا سدّباب کرنے‘ ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے محض حکمرانوں کی خوشنودی اور اپنا حصہ رسدی وصول کرنے کے لئے ان کی سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہی‘ یہ سوال کسی نے پیپلز پارٹی کی قیادت سے پوچھا نہ مسلم لیگ (ن) سے اور نہ تحریک انصاف کے وابستگان سے جنہیں ان دنوں ایم کیو ایم اور ذوالفقار مرزا کی رفاقت کا شرف حاصل ہے۔ پاکستان کی تباہی و بربادی اور قومی اداروں کی شکست و ریخت میں جرم اور سیاست کے گٹھ جوڑ نے اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کیا۔سیاست جب تک ذاتی و خاندانی عزت و وقار اور عوامی خدمت کا ذریعہ رہی۔اصحاب اقتدار و اختیار جرائم اور مجرموں کی سرکوبی میں مگن رہے مگر جونہی حکمرانی کا منصب اخلاق باختہ جاہ پسندوں‘مفاد پرستوں اور دھن دولت کے پجاریوں کے ہاتھ لگا‘ سیاست اور جرم ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو گئے اور اخلاقیات سیاست کی منڈی میں‘جنس نایاب ٹھہری‘ نواب آف کالا باغ سیاسی مخالفین کو قتل کرانے کی شہرت رکھتے تھے اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی ڈاکٹر نذیر احمد‘ خواجہ محمد رفیق ‘ نواب محمد احمد خان نے محض سیاسی مخالفت کی بنا پر موت کا مزہ چکھا۔ کراچی میں’’ بھائی‘‘ نے مگر ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ ’’بھائی ‘‘کے مسلح کارکنوں نے دو چار دس نہیں سینکڑوں سیاسی مخالفین تہہ تیغ کئے ‘ سانحہ بلدیہ ٹائون میں تین سو کے قریب مرد و زن زندہ جلا دیے گئے۔ 12مئی کو ٹی وی کیمروں کے سامنے وکیلوں کو گولیاں مار کر شہید کیا گیا جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے استقبال کے لئے جمع تھے‘ اس سنگین جرم کو سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے عوامی طاقت کا مظہر قرار دیا‘ عبدالرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت اور عزیر بلوچ کا لیاری گینگ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ذوالفقار مرزا کی پیشکش تھی جن کی بیگم صاحبہ فہمیدہ مرزا عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹوں پر سیاسی بحث مباحثہ عوام اور سیاستدانوں بالخصوص مرکز ‘ صوبے کے حکمرانوں کی تفریح طبع کے سوا کچھ نہیں‘ سندھ حکومت کی بنیادی ذمہ داری رپورٹوں کی اشاعت نہیں‘ تینوں رپورٹوں کے نامزد ملزموں سے بے لاگ تفتیش اور انہیں کیفر کردار تک پہچانا ہے‘ وفاقی حکومت بھی تاحال اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی مرتکب ہے اور ریاست کے ان اداروں کی خاموشی بھی معنی خیز ہے جو جرم اور سیاست میں عشروں سے جاری گٹھ جوڑ کے مفاسد اور تباہ کاریوں سے بخوبی واقف ہیں‘ کراچی قومی معیشت کی شہ رگ ہے۔ لیاری گینگ اور سانحہ بلدیہ ٹائون کے مجرموں نے برسوں تک پاکستان کی معاشی شہ رگ پر پنجے گاڑے رکھے‘ خون بہتا رہا اور اثرات و نتائج پورا ملک آج تک بھگت رہا ہے مگر طاقتور مجرموں سے تاحال کسی نے تعرض نہیں کیا‘سیاسی مصلحتیں سب پر حاوی ہیں اور جے آئی ٹی رپورٹوں کو دو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی کردار کشی کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ ذوالفقار مرزا ‘ عزیر بلوچ اور سانحہ بلدیہ ٹائون کے مجرم اپنے اپنے عافیت کدوں میں بیٹھے مسکرا رہے ہوں گے کہ کیا ہونا چاہئے تھا اور کیا ہو رہا ہے؟۔ لیاری گینگ اور سانحہ بلدیہ ٹائون و سانحہ 12مئی میں ملوث مافیا کو علم ہے کہ جب تک جرم اور سیاست یک جان و دو قالب ہیں‘ سیاستدانوں کو جرائم پیشہ گروہوں اور قانون شکنوں کو سیاستدانوں‘ پرویز مشرف جیسے فوجی آمروں کی ضرورت ہے ان کا کوئی بال بیکا کر سکتا ہے نہ کسی جے آئی ٹی رپورٹ پر عملدرآمد کا اندیشہ۔بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان‘ قتل و غارت گری کے مجرموں کو جب یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ لوٹ مار کی دولت اقتدار کے پجاریوں پر نچھاور کریں ان کی سیاسی مہم میں حصہ ڈالیں‘اہل خانہ کی خاطر تواضع کریں ۔ بیرون ملک جائیدادیں بنانے اور وفاداریوں کی خریدو فروخت میں مددگار ہیں‘ انہیں سات خون معاف ہیں تو وہ معاشرے میں کسی کو سکھ چین کی زندگی کیوں بسر کرنے دیں؟ کرپشن اور جرم کا سیاست سے گٹھ جوڑ ملک کے لئے تباہ کن‘ معاشرے کا ناسور مگر بُرا ہو سیاسی مصلحتوں کا ‘اس گٹھ جوڑ کا خاتمہ ریاست اور معاشرے کی پہلی ترجیح رہی نہ لٹیروں‘ قاتلوں اور مجرموں سے نفرت کاجذبہ غالب سچ پوچھئے تو یہی سکّہ رائج الوقت ہے ورنہ کسی جے آئی ٹی پر کبھی تو عملدرآمد ہوتا‘ کسی مجرم کو سزا تو ملتی ! سانحہ بلدیہ ٹائون‘ ماڈل ٹائون‘ لیاری ‘ 12مئی میں جو سینکڑوں بے گناہ رزق خاک ہوئے یوں اپنی قبروں میں پڑے انصاف کی راہ نہ دیکھ رہے ہوتے اور ان کے وارث لاوارث نظر نہ آتے ع یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا