پنجاب کے وزیر اعلی کا فیصلہ ان سات سیٹوں نے کرنا ہے جہاں صورتحال اب تک واضح نہیں ۔ ان سیٹوں پر کانٹے دار مقابلہ جاری ہے،دونوں طرف سے زور لگایا جا رہا ہے ۔ لگتا یوں ہے کہ جیتنے والا محض ایک دو ہزار ووٹوں کے فرق سے جیت پائے گا یا شاید اس سے بھی کم۔ان امیدواروں کی ہار جیت کا فیصلہ بھی شاید آخری دن ہی ہو گا۔ جو الیکشن ڈے پر بہتر کھیل گیا، جیت اسی کا مقدر بنے گی۔ جو اپنے ووٹرز کو گھر سے نکالنے میں کامیاب نہ ہوا وہ بڑے بڑے جلسے کرنے کے باوجود ہار سکتا ہے۔اب دیکھنے کی چیز ہے کہ وہ سات سیٹیں کون سی ہیں جنہوں نے وزیر اعلی کا فیصلہ کرنا ہے۔ پہلی سیٹ PP7 راولپنڈی ہے۔ یہاں راجہ صغیر احمد ن لیگ کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف نے کرنل شبیر اعوان کو ٹکٹ جاری کر رکھا ہے۔ راولپنڈی کا یہ وہ حلقہ ہے جہاں تحریک انصاف کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے جبکہ دوسری طرف راجہ صغیر لوگوں کو اپنے کیے کام یاد دلا رہے ہیں۔راجہ صغیر کی مہم شاہد خاقان عباسی اور حنیف عباسی چلا رہے ہیں تو کرنل شبیر کے لیے صداقت عباسی اور عامر کیانی میدان میں ہیں۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا اس حلقے میں جیت کس کا مقدر بنے گی۔ دوسرا سخت ترین مقابلہ PP288 ڈیرہ غازی خان میں ہے۔ یہاںن لیگ کے سردار عبدالقادر کھوسہ کا مقابلہ تحریک انصاف کے سیف الدین کھوسہ سے ہے ۔2018 میںیہاں محسن عطا کھوسہ آزاد حیثیت میں نو ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے تھے ۔منحرف ہو جانے کے بعد محسن کھوسہ کے بہادرگڑھ گروپ نے عبدالقادر کھوسہ کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیاجو موجودہ منحرف ایم این اے سردار امجد فاروق کھوسہ کے صاحبزادے اور محسن عطا کھوسہ کے بھتیجے ہیں ۔سیف الدین کھوسہ سردار ذوالفقار کھوسہ کے بیٹے ہیں خود بھی ایم این اے اور ضلع چئیرمین رہ چکے ہیں ۔ڈیرہ غازی خان کی اس سیٹ پر کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے اور ابھی کسی ایک امیدوار کے جیت کے بارے میں پیش گوئی کرنا نہایت مشکل ہے۔ جو بھی جیتے گا بہت کم مارجن سے جیتے گا۔ تیسری سیٹ PP140 شیخوپورہ کی ہے۔ یہاں ن لیگ کے امیدوار میاں خالد محمود میدان میں ہیں جبکہ تحریک انصاف نے خرم ورک کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ تحریک انصاف کے تقریبا سبھی لیڈرز اس نشست کو اپنے کھاتے میں لکھ کر بیٹھے ہیں۔اسے اپنی جیتنے والی سیٹوں میں گن رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف ن لیگ کا یہاں کافی اثر ورسوخ ہے۔ ن لیگ نے اس حلقے کا انچارج احسن اقبال کو مقرر کیا ہے جبکہ چھ مزید ایم این ایز کو ان کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا ہے جن میں میاں جاوید لطیف ، رانا تنویر حسین، ارمغان سبحانی، سردار عرفان ڈوگر، ذوالفقار بھنڈراور ڈاکٹر نثار چیمہ شامل ہیں۔ یوں ن لیگ اس سیٹ کو جیتنے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہی ہے ۔ تحریک انصاف بھی مہنگائی اور حقیقی آزادی کو موضوع بنا کر سیٹ جیتنے کی کوشش کر رہی ہے ،اب دیکھئے شیخوپورہ کس کے حق میں فیصلہ کرتا ہے۔ چوتھی سیٹ PP272مظفر گڑھ ہے۔ یہ سیٹ باسط بخاری نے 2018 میں چھوڑ دی تھی کیونکہ وہ ایم این اے بھی منتخب ہو چکے تھے۔ضمنی انتخاب میں انہوں نے اپنی والدہ کو الیکشن لڑایا اور وہ جیت گئیں ۔اب ان کی والدہ منحرف ہوئی ہیں تو باسط بخاری نے اپنی اہلیہ کو میدان میں اتارا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے اس حلقے میں باسط بخاری کے سگے بھائی ہارون بخاری بھی الیکشن لڑتے ہیں۔ ہارون بخاری 2018 میں اپنے بھائی باسط بخاری کے مقابلے میں لڑے اور پھر اپنی سگی ماں کے مقابلے میں لڑے۔ اس مرتبہ وہ اپنی بھابھی اور ایک طرح سے اپنے بھائی ہی کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ ان بھائیوں کا مقابلہ سابق وزیر اور تحریک انصاف کے امیدوار معظم جتوئی کے ساتھ ہے۔ باسط بخاری شاید اس سیٹ پر فیورٹ ہوتے مگر دو بھائیوں کے آپس میں ٹکرا جانے کے باعث ووٹ تقسیم ہو گا جس کا فائدہ معظم جتوئی اٹھا سکتے ہیں یوں یہ معرکہ نہایت دلچسپ ہو گیا ہے۔ پانچواں دلچسپ حلقہ بھی مظفر گڑھ ہی کا ہے۔PP273 مظفر گڑھ۔یہاں سبطین رضا منحرف ہو جانے کے بعد ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں جبکہ تحریک انصاف نے یاسرجتوئی کو میدان میں اتار رکھا ہے۔ عمران خان نے اس حلقے میں تاریخ ساز جلسہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے یہ علی پور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہے ۔ اس جلسے کے بعد مقابلہ اور دلچسپ ہو گیا ہے۔ چھٹا حلقہ لاہور میں ہے جہاں ہار جیت کا فیصلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ PP167 ۔ یہاں ن لیگ کے نذیر چوہان کا مقابلہ شبیر گجر کے ساتھ ہے ۔ اگرچہ شروع میں نذیر چوہان کافی دبائو میںنظر آتے تھے ،شبیر گجر کی مقبولیت دن بدن بڑھ رہی تھی لیکن ن لیگ نے اپنے تجربے اور حکمت عملی سے گیپ کو خاصا کم کیا ہے۔ ایم این اے شائستہ پرویز ملک یہیں سے منتخب ہوئی ہیں۔حلقے میں اس فیملی کا خاصا اثرو روسوغ ہے۔ شبیر گجر کی بھی یہاں کافی برادری موجود ہے۔دیکھئے جیت کس کا مقدر بنتی ہے۔ ساتویں سیٹ PP125 جھنگ کی ہے۔ اس سیٹ پر فیصل حیات جبوآنہ اور تحریک انصاف کے اعظم چیلہ مد مقابل ہیں۔ بیس دن پہلے یہ حلقہ اعظم چیلہ کے حق میں جاتا نظر آتا تھامگر پھر فیصل جبوآنہ نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ ن لیگ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی ’’ہر طرح ‘‘ سے معاونت کی۔ اس کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ یہ سیٹ کون جیتے گا۔ یوں پنجاب کے ضمنی انتخابات میں یہی سات سیٹیں ہیں جو وزیر اعلی کا فیصلہ کریں گی۔ باقی تیرہ میں سے تحریک انصاف اور ن لیگ چھ چھ ، سات سات سیٹوں پر کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں ۔ ان سات کے بغیر کسی بھی جماعت کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہوتی۔ تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لیے تیرہ اور ن لیگ کو نو سیٹوں کی ضرورت ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ موجودہ چار آزاد ایم پی ایز کسی کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر ن لیگ کو بھی تیرہ نشستوں ہی کی ضرورت ہے ۔ اب دیکھئے نتیجہ کیا نکلتا ہے اور پنجاب میں اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھتا ہے ۔