بات محترم شہریار آفریدی سے شروع ہوئی تھی جنہیں اسی ہفتے محترم فخر امام کی جگہ کشمیر کمیٹی کا چیئر مین لگایا گیا ہے ۔ گزشتہ کالم میں ،میں نے سوال اٹھایا تھا کہ ارکان اسمبلی پر مشتمل ’’کشمیرکمیٹی‘‘ کے قیام کی ضرور ت ہی کیا ہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کی حکمراں بننے کے بعد پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ سب سے پہلے کماؤ پوت اداروں،محکموں ،کمیشن اور کمیٹیوں میں اپنے ’’بندے‘‘ لگائے جائیں۔کہ انہوںنے اقتدار میں آنے سے پہلے جو سرمایہ کاری کی ہوتی ہے ،اُس کا انہیں returnدیا جائے۔دوسرا مقصد سیاسی مخالفین کا بازاری زبان میں منہ بند کرنا ہوتا ہے۔نام تو اور بھی ہیں۔ زیادہ تفصیل میںگیا تو اصل موضوع پس منظرمیں چلا جائے گا۔ گزشتہ کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ کم از کم شہ رگ ِ پاکستان کو تو ہمارے حکمراں سنجیدگی سے لیں جس کے لئے مظلوم ،محکوم کشمیری ایک لاکھ سے زیادہ شہادتیں دے چکے ہیں۔اور اگست 2019ئمیںمودی سرکار نے آرٹیکل 370کے ذریعہ اپنے غاصبانہ قبضے کو جو مزید آئینی تقویت دی ہے ،اُس پر تو اسلام آباد کے حکمرانوں کو آسمان سرپہ اٹھا لینا تھا۔مگر اسلام آباد کی حکومت ،کشمیر کمیٹی اور پھر اقوام متحدہ میںہمارے مستقل مندوب اور اُن کی ’’بھیڑ‘‘کی کارکردگی دیکھیں کہ سارے مقبوضہ کشمیر میںکرفیو سے اینٹوں ،پتھروں سے لڑنے والے کشمیریوں کیلئے ہم سلامتی کونسل سے ایک قرار داد مزمت بھی منظور نہ کرواسکے۔ کشمیر کمیٹی کو یاکشمیر کمیٹی سے سب سے زیادہ شہرت ہمارے حضرت مولانا فضل الرحمان کو ملی۔جس کا ذکر گزشتہ کالم میں کرچکا ہوں کہ حضرت مولانا کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سینگھی ہے کہ ایک دوسرے کے بدترین مخالف ’’میاں ۔بی بی‘‘ دونوں نے انہیں اس مال و منال کمیٹی کا سربراہ لگایا۔حضرت مولانا فضل الرحمان کی طرح ہمارے نوبزادہ نصراللہ کو بھی پیپلزپارٹی کے دور میں کشمیر کمیٹی کا چیئر مین لگایا گیا تھا۔نوابزادہ صاحب اُس وقت کے صدر فاروق لغاری کے ساتھ سرکاری حج پر بھی گئے ۔اب حج جیسے مقدس فریضے کو بھی ہمارے حکمرانوں نے اپنوں اپنوں کو نوازنے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ہر مسلما ن کی خواہش ہوتی ہے وہ یہ فریضہ انجام دے۔ساری زندگی کی جمع پونجی سے ہمارے ہاں بزرگوں کی اکثریت حج کرتی ہے یا پھر فرمانبردار اولاد اپنے والدین کی خواہش پوری کر کے شریک ِ ثواب ہوتے ہیں۔عام لوگ بڑے مصائب سے گذر کر حج کرتے ہیں ۔اُن کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا مگر ’’سرکاری حج‘‘ پرتعیش اور بااعزاز بھی ہوتا ہے۔حوالہ ایک بار پھر سابق سفارت کار کرامت اللہ غوری کی سوانح ’’روزگار ِ سفیر‘‘ دوں گا کہ مرحوم نوابزادہ کی جمہوریت کے لئے جدو جہد اپنی جگہ ،مگر، بہر حال نوابزادہ صاحب بھی حضرت مولانا سے دو قدم آگے تو مراعات لینے میںایک قدم پیچھے بھی نہ تھے۔ غوری صاحب لکھتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ 1992ئمیں سرکاری حج کے رکن بھی بن کر آئے ۔پڑھ کر حیرت اور افسوس ہوتا ہے کہ جاگیردار ،سرمایہ دار سیاست داں تو ہوتے ہی بدنام ہیں ،مگر درمیانہ طبقے کے سیاستداں بھی حکمرانی ملنے پر کس طرح گردن میں سریہ ڈال لیتے ہیں۔غوری صاحب لکھتے ہیں : ’’اتفاق یہ ہوا کہ حج سے دو دن پہلے منیٰ میں حاجیوں کے لئے مختص خیموں میں آگ لگ گئی اور آگ کا زیادہ زور اس علاقہ میں رہا جہاں ہمارا پاکستانی کیمپ تھا۔بہت سے خیمے جلے،جل کر راکھ ہوگئے،جس کی وجہ سے قونصل خانے کے عملے کے لئے انتظامی مسائل پیدا ہوگئے۔منیٰ جانے سے ایک دن پیشتر کی بات ہے میں اور قونصلر عارف اس کے گھر میں بیٹھے اسی مسئلے پر بات کررہے تھے ۔ظاہر ہے کہ عارف پریشان تھا۔اس ناگہانی آفت نے اس کے سر پر بڑا بوجھ لاد دیا تھا۔ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی اور عارف کے سیکریٹری نے بتایا کہ نوابزادہ نصراللہ جو حکومت ِ پاکستان کے سرکاری حج وفد کے رکن تھے،عارف سے بات کرنا چاہ رہے تھے۔ ’’عارف نے اس خیال سے کہ میں بھی نوابزادہ صاحب کا سامع ہوجاؤں فون اسپیکر پر ڈال دیا۔میراخیال تھا کہ نوابزادہ صاحب جو نصف صدی سے بقول ان کے عوام کے خادم رہے تھے، عارف سے اظہار ہمدردی کریں گے کہ اس پر اس بلائے ناگہانی نے اضافی بوجھ ڈال دیا تھا،لیکن نہ ان کے لہجہ میں ہمدردی کا کوئی شائبہ تھا اور نہ ہی اس پر رنج یا افسوس کہ پاکستانی کیمپ پر وہ سانحہ گذر گیاتھا۔ ’’نوابزادہ صاحب نے تحکمانہ لہجے میں فرمایا کہ انہیں آگ لگنے کی اطلاع ملی تھی لیکن وہ چاہتے تھے کہ قونصل جنرل ،یعنی عارف کمال،اس امر کو یقینی بنائیں کہ ان کا یعنی نوابزادہ صاحب کا منیٰ میں اور عرفات میں اور جہاں کہیں بھی قیام ضروری تھا خیمہ ایئر کنڈیشنڈ ہونا چاہئے اور فرش وغیرہ بھی موٹے قالینوں کا ہو۔ ’’میں نے سر پیٹ لیا اور عارف کے چہرے پہ تو ایک رنگ آتا تھا اور دوسرا جاتاتھا۔۔۔‘‘ یہ لیجئے، شہریار آفریدی جو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہوئے ہیں ،اُن پر تو ہم صرف دو حرف ہی لکھ پائے۔کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں ہمارے مستقل مندوب اور اس کی ٹیم کا بھی بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مندوب سر ظفر اللہ خان کا ذکر کرچکا ہوں کہ پاکستان کو آزاد ہوئے سال ہی ہوا تھا ۔قائد اعظم رحلت فرما گئے تھے۔بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور ساتھ کرشنا مینن جیسے ذہین سفارتکار کے ہوتے ہوئے سر ظفراللہ نے ایسا کشمیر کا کیس لڑا کہ اقوام ِ عالم کو ایک ایسی قرار داد پر دستخط کرنے پڑے جس میں واضح طور پر یہ شق شامل تھی کہ ’’کشمیر‘‘ کا مسئلہ رائے شماری سے ہی حل ہوگا۔ شملہ،تاشقند سمیت جتنے بھی پاکستان ،بھارت کے درمیان اب تک معاہدے ہوئے ،یہ واحد شق ہوتی ہے جس کی بنیاد پر بھارت کو ہر فورم پر کشمیر کومتنازعہ علاقہ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ چلتے چلتے ،حضرت مولانا فضل الرحمان کی طرح اپنی صحافتی دوست ملیحہ لودھی کو بھی داد دینا پڑتی ہے۔لگتا ہے اس معاملے کے لئے ضرور انہوں نے حضرت مولانا فضل الرحمان سے رجوع کیا ہوگاکہ میاں کا دور ہو یا بی بی کا حتیٰ کہ جنرل مشرف کا بھی، دہائی اوپر یہ عہد ہ اپنے پاس رکھا اور کارکردگی یہ کہ جس کا باربار ذکر کرچکا ہوںکہ ستمبر 2019میں سلامتی کونسل کے 16ارکان سے ایک مذمتی قرارداد منظور نہ کروا سکیں۔ رہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی توملتان کے سب سے بڑے پیر گھرانے کے وارث ہیں ۔سال کے سال بڑی شان و شوکت سے ان کی دستار بندی ہوتی ہے۔کشمیر میں آگ وخون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اور شاہ صاحب کے سر پر کلا ہ سجائی جارہی تھی۔ ٭٭٭٭٭