دھرتی کی محبت میں بندھے بیرسٹر نسیم احمد باجوہ پاکستان آئے ہیں۔چند ماہ پہلے آئے تو قومی مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا۔یہ مجلس قومی امور پر مختلف طبقات کے درمیان فکری ہم آہنگی پیدا کرنے کا کام انجام دے رہی ہے۔باجوہ صاحب پچھلے لگ بھگ 60برسوں سے برطانیہ میں ہیں۔کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔نامور وکیل ہیں۔عالمی ادب پڑھ رکھا ہے۔دنیا میں تبدیلی لانے والی فکری تحریکوں سے واقف ہیں۔ برسوں پہلے ان کا ایک کالم ’’آمر کی بیٹی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔سٹالن کی ذاتی زندگی کے متعلق مستنصر حسین تارڑ صاحب نے بڑی دلچسپ معلومات سے نوازا تھا۔خیر باجوہ صاحب نے کالم میں بتایا کہ عشروں پہلے ان کی ملاقات لندن میں سٹالن کی بیٹی سے ہوئی تھی۔اس سلسلے میں انہوں نے اور بھی باتیں لکھیں۔تب سے میں ان کے کالموں کا قاری ہوں۔جمعرات 10اگست کو بیرسٹر نسیم احمد باجوہ کی تشکیل دی گئی قومی مجلس مشاورت کا اجلاس تھا۔انہوں نے بڑی محبت سے حاضرین کو بتایا کہ ان کی بیگم کا خاندان 2ہزار سال سے لاہور میں رہ رہا ہے لیکن بیگم صاحبہ نے’’ ارمغان لاہور‘‘ پڑھ کر تبصرہ کیا کہ اس قدر معلومات تو ان کے پاس بھی نہیں۔ اس حوصلہ افزائی نے مجھے خوشی اور حوصلہ دیا کہ لاہور پر لکھنے کے مزید نئے پہلو تلاش کروں۔بہرحال یہ مشاورتی اجلاس میری کتاب یا میری تحقیق پر بات کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ نامور قانون دان اشتیاق چودھری کی جانب سے ایک سیاسی کنفیڈریشن کے تصور پر بات کرنے کی خاطر بلایا گیا تھا۔ ہمارے سینئر کالم نگار اور سابق سینیٹر طارق چودھری ‘ جناب خالد رسول‘ مزدور کسان پارٹی کے نمائندے‘ بھٹہ مزدور حقوق کے لئے کام کرنے والے لوگ‘ گھریلو کام کاج کرنے والی خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی محترمہ شمیم‘ ریاض احمد دانشور سمیت کئی دیگر لوگ مدعو تھے۔مدعا یہ تھا کہ اشتیاق چودھری چاہتے تھے کہ ملکی سیاست بالائی طبقات کے شکنجے سے نکالی جائے۔ان کا خیال ہے کہ وہ چھوٹی جماعتیں جو گمنام ہو رہی ہیں‘ وہ گروپ جو کسی وجہ سے مرکزی دھارے میں پہچان نہیں بنا سکے انہیں کسی طور پر ایک مشترکہ ایجنڈہ ترتیب دینا چاہیے۔سب گروپ اور جماعتیں اپنی الگ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے اس مشترکہ ایجنڈے پر عمل کریں۔شرکاء کی گفتگو سے مشترکہ ایجنڈہ کے لئے جو نکات سامنے آئے ان میں قانون کی بالادستی‘ معاشی بہتری‘ نچلے طبقات کی پارلیمنٹ اور بلدیاتی اداروں میں نمائندگی بڑھانا وغیرہ شامل تھے۔ سرکاری ملازمین کی تنظیم کے صوبائی صدر کاشف کا گلہ تھا کہ حالیہ دنوں لاہور میں سیکرٹریٹ کے سامنے 10ہزار سرکاری ملازمین نے دھرنا دیا۔سماج کے باقی طبقات اس دھرنے سے لاتعلق بنے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وکلائ، سول سوسائٹی‘ میڈیا‘ مزدور تنظیمیں اور تھنک ٹینک اس دھرنے میں بطور گروپ شریک ہوتے تو حکومت کئی دن تک گرمی میں احتجاج کرنے والے ملازمین کو نظرانداز نہ کرتی۔ لیبر پارٹی‘ مزدور کسان پارٹی اور دیگر تنظیموں کے لوگ عشروں سے شعوری بیداری کا کام کر رہے ہیں ۔سوال یہ پید ہوا کہ لوگ آخر انہیں نظرانداز کر کے بار بار حکمران اشرافیہ کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں کے بہکاوے میں کیوں آ جاتے ہیں۔ طارق چودھری صاحب نے لیڈر شپ کے خلاکو پورا کرنے کے ضمن میں اپنا تجزیہ ایک دلچسپ واقعہ کے ساتھ واضح کیا ۔انہوں نے بتایا کہ جنرل حمید گل جب کور کمانڈر ملتان تھے تو انہوں نے جنرل صاحب کو مشورہ دیا کہ لیفٹ سارا بے نظیر کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔رائٹ ونگ کے پاس کوئی لیڈر نہیں۔آپ سیاست میں آ جائیں۔ جنرل حمید گل نے کہا کہ انہیں اگلا آرمی چیف بنائے جانے کی امید ہے اس لئے ریٹائرمنٹ نہیں لے سکتے ۔ بعد میں آئی جے آئی بنی اور نواز شریف اس کے لیڈر بن گئے تو حمید گل نے کہا کہ وہ خود اب رائٹ ونگ کی قیادت کے لئے سیاست میں آنا چاہتے ہیں۔ طارق چودھری نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ نے خود رائٹ ونگ کو اکٹھا کر کے نواز شریف کو اس کا لیڈر بنا دیا ہے ،خلا پر ہو چکا‘ اب آپ سیاست میں نہ آئیں۔اس واقعہ کو سنانے کے بعد طارق چودھری نے کہا کہ عمران خان پھر آئیں گے۔جب وہ لوٹیں گے تو ایک خلا ان کی مخالفت اور متبادل کے طور پر جنم لے گا۔ اس وقت جو نئی جماعت محنت کرے گی وہ مرکزی دھارے میں اپنا ایجنڈہ لوگوں کے دل میں اتار لے گی۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک شروع دن سے جمہوریت‘ سماجی ترقی، معاشی بہتری اور ثقافتی ہم آہنگی میں رکاوٹ بننے والے معاملات پر مرتکز تھا۔جمہوریت اس لئے مضبوط ہوئی کہ بھارت نے آزاد ہوتے ہی جاگیرداری ختم کر دی۔وہاںاب غلاموں کے ووٹ نہیں پڑتے۔سماجی ترقی اس لئے ہو رہی ہے کہ سماج کو ٹکڑے کرنے کی بجائے ایک ہی جغرافیے اور نظریے کی بنیاد پر جوڑا گیا۔معاشی بہتری یوں آئی کہ سرمایہ داروں کو سیاسی میدان میں گھسیٹنے کی بجائے کاروبار کے لئے پوری آزادی دی گئی۔اب بھارت میں ٹاٹا اور برلا ہی نہیں‘ امبانی‘ اڈانی اور آئی ٹی کے ارب پتی لوگ موجود ہیں۔پاکستان اردو بنگلہ تنازع سے ٹوٹا۔ بھارت نے درجنوں زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے کر تقسیم کا یہ راستہ بھی بند کر دیا۔ہمارے بحرانوں کی بڑی وجہ سول ملٹری ریلیشن ہوتے ہیں۔بھارت نے اس کو مسئلہ بنایا ہی نہیں۔یوں ہمیں اپنی ریاست‘ قوم اور سماج کو آگے لے کر جانا ہے تو سیاسی و سماجی تنظیموں کو اپنے ایجنڈے ازسرنو مرتب کرنا ہوں گے۔ بیرسٹر نسیم احمد باجوہ نے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اختتام اس تجویز پر کیا کہ کچلے ہوئے طبقات کو بلدیاتی انتخابات میں مزدور‘ کسان اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر اپنے تربیت یافتہ لوگ کونسلر منتخب کرانے کی کوشش کرنا چاہیے۔عام آدمی کو بااختیار بنانے کا عمل اس نکتے سے شروع ہو سکتا ہے۔