طالبان نے 6 اگست سے اب تک کابل کے علاوہ افغانستان کے تمام بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اتوار کی صبح کو طالبان نے بغیر لڑے جلال آباد کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جو کہ مشرقی افغانستان کا اہم شہر ہے جبکہ اس سے پہلے دوسرے بڑے صوبے بلخ کے دارالحکومت مزار شریف سمیت افغانستان کے 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے 20 کا کنٹرول طالبان سنبھال چکے ہیں۔ ہفتہ کے روز ضلع چار اسیاب پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد اب طالبان کابل کے جنوب میں صرف 11 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ہفتہ کے دن اپنے ریکارڈ شدہ پیغام میں صدر اشرف غنی نے افغان فوج کو از سرِ نو حرکت میں لانے کو پہلی ترجیح قرار دیا ہے لیکن پھر خود تاجکستان چلے گئے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ صدر اشرف غنی پر استعفیٰ کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی دوحہ امن عمل کے ہر قدم پر طالبان کے ساتھ تاخیر کے حربے استعمال کر رہے تھے،جس کے نتیجے میں مسلسل افغان لڑائیوں کی وجہ سے معصوم افغان شہری اور فوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ اگرچہ صدر غنی کو افغانستان کے اقتدار پر اپنا پر قبضہ رکھنے اور اپنے ساتھی افغانیوں کے خون بہانے کی قیمت پر بظاہر کچھ فائدہ تھا مگر امریکہ سمیت کسی بھی ہمسائے ملک کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ، سوائے اس کے کہ افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جس کا اِشارہ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری بھی دے چکے ہیں۔ دوسری طرف طالبان نے انٹرنیشنل کمیونٹی کو یقین دلایا ہے کہ انکی قیادت میں افغانستان اقوام عالم کے ایک مثبت کردار کے طور پر ابھرے گا۔جب طالبان کے نائب رہنما ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں وفد نے پڑوسی ممالک کے دورے کیے تھے تو انہیں یقین دلایا کہ ایک بار اقتدار میں آنے والی طالبان کی زیر قیادت حکومت ایک محفوظ اور مستحکم افغانستان کے طور پر علاقائی اور عالمی استحکام میں کردار ادا کرے گی۔ مثال کے طور پر اشک آباد، ترکمانستان کے دورے کے دوران زیر بحث مسائل میں ترکمانستان ۔افغانستان۔ پاکستان۔انڈیا (TAPI ) قدرتی گیس پائپ لائن، ترکمانستان۔ افغانستان۔پاکستان ( TAP) پاور لائن کی تعمیر، اور افغانستان کو ترکمانستان ریلوے کے ذریعے مزید جوڑنے والے منصوبے شامل تھے۔ تباہ کن خانہ جنگی اس وقت تک نہیں رکے گی،جب تک امریکہ طالبان امن معاہدہ یا دوحہ معاہدہ اپنی پوری روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو جاتا۔طویل خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں جاری تنازع نے صرف ایک چیز کو ثابت کیا ہے کہ طالبان افغانستان میں سیاسی طاقت کے طور پر ایک حقیقت ہیں جنہیں قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اب یہ افغانیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لیے،اپنی آنے والی نسلوں اور اپنے ملک کے لیے کیا چاہتے ہیں۔ افغانیوں کو اس حقیقت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ امریکہ مستقبل میں کسی بھی وجہ سے ان کے ملک کو ماضی کی طرح مزید اَن گِنت ڈالر نہیں دے گا۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ افغان دھڑے اور طالبان دونوں مِل بَیٹھ کر اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کریں ، علاقائی ممالک، امریکہ اور دوسرے طاقتور ممالک افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے دونوں فریقوں کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر نے کے لیے بے چین ہیں۔ اگر وہ یہ موقع گنوا دیتے ہیں تو وہ اپنے ملک میں امن اور استحکام کو مزید ایک دہائی تک قائم نہیں کر سکیں گے اور افغانستان 1990 کی دہائی کے ابتدائی حالات میں ڈوب سکتا ہے۔ افغانستان کے ایک پرامن،مستحکم اور ترقی پسند ملک کے طور پر ابھرنے کے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے افغان قیادت اور دانشوروں کے لیے ایک سخت امتحان کا وقت ہے۔ طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات شاید مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں کیونکہ طالبان اردگان کے ترکی (پاکستان کے قریبی دوست)سے خوش نہیں ہیں کیونکہ ترکی کی جانب سے کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کو کنٹرول کرنے کے لیے رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔ طالبان کو اب بھی پاکستان جیسے اتحادی کی ضرورت ہے جو بین الاقوامی فورمز پر سفارتی معاونت جاری رکھ سکے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ طالبان کو اپنے ساتھ اَنگیج (engage) رکھے کیونکہ طالبان ایک حقیقت ہیں اور پاکستان نہ صرف اپنی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے جو ملکی معیشت اور داخلی سلامتی کے لیے ضروری ہے طالبان پر اپنے اثر رسوخ کھونے کا متحمل نہیں ہو سکتا،بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ افغانستان ایشو سمیت باقی معاملات طے کرنے کی صلاحیت برقرار رکھنے کے لیے بھی پاکستان طالبان سے لا تعلق نہیں رہ سکتا کیونکہ عالمی سیاست صرف اخلاقیات کے اصولوں پر نہیں کام نہیں کرتی۔افغانستان میں طالبان کا پلڑا بھاری ہوتے دیکھ کر انڈیا نے بھی طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی ہے مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اور اس کا عملی مظاہرہ اِس ہفتے ظاہر ہوا ہے،جب مودی حکومت نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ’’علاقائی مذاکرات‘‘ میں شامل ہونے کی قطری دعوت کو قبول کیا لیکن انڈیا کے وفد نے نہ صرف افتتاحی اجلاس سے،جس میں امریکہ ، چین ، پاکستان ، ازبکستان اور برطانیہ شرکت کر رہے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ "ٹرا ئیکا پلس مذاکرات" جس میں روس، امریکہ، چین اور پاکستان شامل تھے سے بھی خود کو باہر پایا اور اس کے بجائے جرمنی، ناروے ، ترکمانستان ، تاجکستان اور ترکی کے ساتھ سیشن میں بھارت کو شامل کیا گیا۔ پاکستان،افغانستان کے مسئلے کے ایسے سیاسی حل پر یقین رکھتا ہے جو تمام افغان سیاسی دھڑوں کے لیے نہ صرف قابلِ قبول ہو بلک اِتفاق رائے پر مبنی ہو اور اِس کا اِظہار پاکستانی قیادت نے مختلف مواقع پر اپنے ہم منصبوں کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی فورم پر بات چیت کرتے ہوئے کیا ہے۔ پاکستان غیر ریاستی اداکاروں کی طرح حربی تدبیریں اختیار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ افغانستان میں امن کے عمل کو آسان بنانے اور علاقائی استحکام میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے اس کے کئی وعدے اور مجبوریاں ہیں۔ پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اس سے اسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل فوائد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔