چین میں مقیم ہمارے قدیم دوست نے ازکارِ رفتہ کے گزشتہ کالم’شہر کو اُجاڑنا لازم نہیں‘، پر تبصرہ ایک مصرعے میں لکھا ہے،’حضور کا شوق سلامت رہے، شہر اور بہت‘۔ڈاکٹر صاحب پی ایچ ڈی اور ایک سابق فوجی ہیں، اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے عمران خان کے کبھی حامی نہیں رہے۔ وہ اس قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے جو کسی ایک فرد یا افراد کی محبت یا نفرت میں گرفتار ہوں۔چنانچہ ڈاکٹر صاحب کی بات کا بُرا منانے کی بجائے اس کے اندرچھپے دردکو محسوس کرنا چاہیئے۔ ڈاکٹر صاحب کل بھی سیاسی انجینئرنگ کے خلاف تھے، آج بھی اپنی اُسی سوچ کے ساتھ اُسی مقام پر کھڑے ہیں ۔چند برس پہلے تک عمومی تاثر یہی تھا کہ پاکستانی مڈل کلاس کا حصہ ہونے کی بناء پر سابقہ فوجی افسروں کی غالب اکثریت ملک میں شدت کے ساتھ اٹھنے والی تبدیلی کی اُس لہر کے ساتھ کھڑی ہے کہ جس کو اس وقت کی مقتدرہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔اکثر ہم میں سے اس امر سے صرفِ نظر کرتے ہیںکہ یہ حمایت عمران خان کے سحر سے زیادہ چند خاندانوں سے پڑھے لکھے مڈل کلاس پاکستانیوں کی بیزاری کا اظہار تھی۔ اس دور میں عمران خان کی حمایت ایک فیشن تھا۔ توکسی نے کہا یہ ایک فین کلب ہے۔ کوئی بولا یہ کلٹ فالوئونگ ہے۔راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک’ دانشور‘ صحافی جو شاید اب بھی معاصر میں کالم لکھتے ہوں، سال2018ء کے بعدنواز شریف کی حمایت کوتکرار کے ساتھ ’سیاسی عصبیت‘ قرار دیتے جبکہ اسی سانس میں عمران خان کی مقبولیت کو ’کلٹ فالوئونگ‘ کہتے۔سیاسی عصبیت سے پھوٹنے والی فکری بد دیانتی پرکسی کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم غیر جانبداری پر جن رائے سازوں کو اصرار ہو، ان سے کچھ بہتر کی توقع کی جانی چاہیئے۔ ہم جیسوں کو ان دنوں عجیب صورتحال در پیش ہے۔اپنے لوگوںمیں بیٹھتے ہیں تو یاروں کی بھیڑ کے اندر ادارے کے’ نادان دوست‘ ہمیں ادارے کے ساتھ محبت کا قرینہ سکھانے لگتے ہیں۔ اے خدا ،یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ ہمیں بتاتے ہیں کہ اِ ن دنوں جو شخص بھی آئینی و جمہوری حقوق کی پاسداری کی بات کرے وہ ادارے کا دشمن ہے۔گئے عشروں وطنِ عزیز میں چند ’حساس‘ مذہبی موضوعات پر بات کرنا شجرِ ممنوعہ قرار پاچکا ہے۔خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارہونے کا تاثر دینے والے ان مٹھی بھر عناصرنے اندریںحالات اس فہرست میں ایک اور موضوع کا اضافہ کر دیا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اکیسویں صدی میں بھی چار عشروں سے ہم پر مسلط چند خاندانوں اور ان کی نسل در نسل حکمرانی کے تسلسل میں ہی قوم کی نجات دیکھتے ہیں۔ کچھ برس پہلے تک یہ عناصراسٹیبلشمنٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ جمہوریت کے گن گاتے اور آئین اور قانون کی حکمرانی کا راگ الاپتے تھے۔ اس گروہ کا مخصوص طریقہ واردات مگریہ تھا کہ جہاں’ ایک پیج‘ کو تضحیک کا نشانہ بناتے، وہیں توجہ دوسری جانب روایتی سیاسی خاندانوں کی حکمرانی سے جڑی علتوں کی طرف دلائی جاتی تو پہلو بدلتے اور فرماتے،’ سب سیاستدان ہی برے ہیں۔‘ تنقید مگر صرف عمران پر کرتے۔ اپنی حکومت کے گرائے جانے کے بعد عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اٹھایا، اس کی نفسیاتی توجیہہ تو کسی حد تک پیش کی جاسکتی ہے، تاہم الفاظ کے چنائو میںایک حد کو پار کرنا ایسا عمل تھا کہ جس کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ 9مئی کے سانحے نے پانسہ پلٹ دیا۔ ملکی سطح پر اس واقعے کے پسِ پشت محرکات اور سیاسی نتائج پراب مورخ ہی آنے والے برسوں، عشروں میں خامہ فرسائی کرے گا۔تاہم حال ہی میں اگر کسی کوکھل کھیلنے کا موقع ملا ہے تو یہی گروہ ہے ،کل تک تو جو ادارے کی گت بناتے نہیں تھکتا تھا، اب مگر’انتخابات ‘کے بعد متشکل ہونے والے متوقع حکومتی بندبست کا منتظر اور اس کی سہولت کاری کرنے والوں کا سب سے بڑا حامی ہے۔عمران خان کی ذات پر ان کی تنقید کو ایک معتبر حوالہ مل گیا ہے۔اسی حوالے کی آڑ میں اس تمام تر ریاستی جبر اور غیر جمہوری طرزعمل کی طرف کہ جس کے یہ ماضی قریب میں شدت سے ناقد رہے ہیں، اب آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کے روادار نہیں ۔انہیں اس امر سے کوئی غرض دکھائی نہیں دیتی کہ اس سب کے بیچ ہماری شہرت اور نیک نامی کو کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔اپنے جیسے ان افراد کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا کرجب ہم اٹھتے ہیں تو کسی اس گروہ میں جا بیٹھتے ہیں، جہاں یونیورسٹیوں کے اساتذہ ہیں، شعراء ہیں، ادباء ہیں۔ سماجی خدمات سر انجام دینے والے ہیں۔گفتگو سن کر جب دل بھر آتا ہے توپھر یہاں بھی بولنا پڑتا ہے۔ جس ملک کے اساتذہ شاکی ہوں، وہاں بچوں کو کیا سبق پڑھایا جاتا ہوگا؟ کیا یہ امر فیصلہ سازوںکے رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی نہیں؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی قریب کی ففتھ جنریشن کہلائی جانے والی جنگ اب ایک نئی شکل اختیار گئی ہے۔آپ چاہیں تو موجودہ صورت حال کو perception کی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس کا جال بچھانے میں دشمن نے کئی برسوںتک تگ و دو کی تھی۔ مگر دیکھا جائے تو یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ جال میں شکار اسی وقت پھنستا ہے جب محرومیوں کو لے کر اس کی Perceived sense of Depriviation راسخ ہو چکی ہو۔ یہ بات لکھ لکھ کرازکارِ رفتہ سپاہی کی تو انگلیاں شل ہو چکیں کہ اس تاثرکے زہر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے جوایک غیر مقبول حکومتی بندوبست کے متوقع قیام کے پیشِ نظر قوم کی رگوں میں اتر رہاہے۔گزشتہ کچھ مہینوں سے جو ہو رہا ہے گلی گلی محلہ محلہ لوگ ایک ہی بات کر رہے ہیں۔ آج ایک معتوب جماعت کے حمایتی یہ بات کہہ رہے ہیں تو ابھی کل کی بات ہے کہ روایتی خاندانوں کے بھونپو بھی یہی الزامات دہراتے پھرتے تھے۔ ایک خاندان سے وابستہ کارندے آج کل ’پراجیکٹ ری سیٹ 2016 ء ‘ پر عمل درآمد کو سانس روکے دیکھ رہے ہیں۔ان موقع پرستوں کا رویہ قابلِ فہم ہے۔ ادارے کی تو مگر Institutional memory ہوتی ہے۔ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے کہ فائدہ کوئی اور اٹھاتا ہے، بدنامی مگرہمارے حصے میں آتی ہے؟آج شہر کے کسی کنویںکے اندر کچھ مرا ملتا ہے تو انگلیاں کسی اورہی کی طرف اٹھنے لگتی ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ آخرایسا کیا ہوا کہ ہر کوئی ادارے کوہی معتوب ٹھہرانے میں اپنا سیاسی مفاد دیکھتا ہے؟ لوگ ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب کی متوقع حکومت جب ناکام ہوگی تو وہ جرنیلوں کے احتساب کا شوشا چھوڑیں گے۔عشرے ڈیڑھ عشرے میں ’سویلین بالا دستی ‘ کا نعرہ آخراس قدر کیوں کر مقبول ہو گیا ہے کہ جو بھی ناکام ہونے لگتا ہے ’اسٹیبلشمنٹ مخالف‘ بیانیہ اٹھا لیتا ہے! نادان دوستوں کی آنکھ سے نہیں، مفاد پرستوں کے زاویے سے نہیں،زور جبر سے نہیں، ٹھنڈے پیٹوں تجزیئے کی ضرورت ہے۔