جب سے آن لائن قرآن مجید کی کلاسز عام ہوئی ہیں عشق کے باب میں "غنے کا عشق" بھی متعارف ہو گیا ہے۔ غنے کے اس عشق کو سمجھنے کے لئے تین باتیں ذہن میں ہونی ضروری ہیں۔ پہلی یہ کہ قرآن مجید کی آن لائن کلاسز میں 95 فیصد یہ ہوتا ہے کہ قاری صاحب پاکستان میں جبکہ ان کا طالب علم بیرون ملک بیٹھا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستانی لبرلز کی اکثریت کو یہی نہیں پتہ کہ لبرل حقیقی تعریف کے مطابق ہوتا کیا ہے ؟ یہاں اکثریت صرف خود کو کھلا ڈلا بتانے کے لئے لبرل کہہ رہی ہوتی ہے اور اگر لبرلزم کے تناظر میں کوئی بحث چھڑ جائے تو یہ سوچے سمجھے بغیر ملحد لبرلز کے ساتھ بھی جا کھڑے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لبرلز کی اس قسم کو "دیسی لبرلز" کا بڑا موزوں نام دیا گیا ہے۔ لبرلز کی ان دونوں اقسام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جو محض کھلا ڈلا یا روشن خیال ظاہر کرنے کے لئے خود کو لبرل بتاتے ہیں یہ صرف مْلا بیزار ہوتے ہیں جبکہ حقیقی لبرل صرف مْلا بیزار نہیں بلکہ بنیادی طورپر مذہب بیزار ہوتے ہیں۔ لبرلز کی پہلی قسم ہمارے ہاں عام پائی جاتی ہے جبکہ دوسری قسم بہت ہی محدود ہے۔ تیسری بات یہ کہ مغرب میں اولاد خود مختار ہے۔ ماں باپ ان پر واجبی سا اختیار ہی رکھتے ہیں۔ ادھر ابا حضور نے اپنے ابا ہونے کا ثبوت دیا اور ادھر پولیس دروازے پر پہنچ گئی کہ باہر آؤ اباجی ورنہ ہم دروازہ توڑ کر اندر آجائیں گے۔ ابا جی سلاخوں کے پیچھے اور پتر جی سلاخوں کے اس پار آنکھوں میں ان کے لئے یہ پیغام لئے ہوئے کہ "ابا جی ! ہن آرام اے ؟" اب آجائیے غنے کے عشق کی جانب ! لوگ گھروں پر تو بڑی عمر کی بچیوں کو قرآن مجید قاری صاحب کے بجائے گھر کی خواتین یا محلے کی کسی باجی سے پڑھواتے ہیں لیکن جب آن لائن قرآن کلاسز کا تصور سامنے آیا تو بیرون ملک بیٹھی فیملیوں نے یہ سوچ کر بڑی عمر کی بچیوں کو قرآن مجید قاری صاحب سے ہی پڑھوانا شروع کردیا کہ قاری صاحب تو ہزاروں میل دور پاکستان میں بیٹھے ہیں، لھذا "خطرے" والی کوئی بات نہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ جو تجوید والا "غنہ" ہے یہ بڑی ظالم شے ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ غنے میں ناک سے مترنم آواز نکلتی ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ قاری صاحب جوان لڑکی کو غنے کی مشق کرا رہے ہوں تو غنہ ہے تو بہت آسان مگر زنانہ غنے کی کشش قاری صاحب کو اسی پر اٹکا دیتی ہے۔ یوں وہ کئی کئی روز تک غنے کی ہی مشق کراتے جاتے ہیں۔ اور تب تک غنے کی جان نہیں چھوڑتے جب تک عشق کے شعلے نہ بھڑک اٹھیں۔ اللہ معاف کرے میں تو ایک ایسے قاری صاحب کو بھی جانتا ہوں جنہیں حال ہی میں ان کی دو ایسی بیگمات نے مل کر پیٹا ہے جو غنے ہی کی مدد سے ان کے نکاح میں آئی ہیں۔ ہوا بس یہ کہ ان دونوں نے انہیں تیسری کا غنہ ٹھیک کراتے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ ایک قاری صاحب ایسے بھی ہیں جن کی بیگم اول پاکستان میں، بیگم ثانی جرمنی میں اور بیگم ثالث آسٹریلیا میں ہیں۔ سات سمندر پار والی بیگمات کو انہوں نے اچھی طرح یقین دلا رکھا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور پلوشن کے ہوتے ان کا رہنا ممکن نہیں۔ لہٰذا وہ اپنے ابا حضور کے ہاں ہی رہیں، بندہ حق زوجیت ادا کرنے کو خود ہی مشقت اٹھاتے ہوئے آیا جایا کرے گا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہ اس کامیابی سے کیسے کر پا رہے ہیں ؟ تو فرمایا "لبرل بندے کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہوتی ہے کہ وہ خود کو بہت سمجھدار باور کرتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کے سمجھدار ہونے کی دلیل ہی یہ ہے کہ وہ لبرل ہے۔ اور ان دیسی لبرلز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ کم سمجھ بہت ہوتے ہیں۔ یہ زمینی حقائق کے مشاہدے کے بجائے اپنے احمقانہ تصورات کی خوابیدہ دنیا میں جیتے ہیں۔ میں ان کے تصورات ہی ان کے خلاف بروئے کار لا رہا ہوں" غنے کے اس عشق کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ یہ قاری چن چن کر دیسی لبرلز کی بچیوں کے ہی غنے ٹھیک کرا رہے ہیں۔ اور جب عشق کی آگ بھڑکنے پر بچی ماں باپ کو آگاہ فرماتی ہے کہ اس کا غنہ ٹھیک ہوگیا ہے اب وہ قلقلے اور "ادغام" کے لئے قاری صاحب کے نکاح میں جانا چاہتی ہے تو اس کے لبرل والدین ہوتے تو پاکستانی ہی ہیں وہ یکدم آگ بگولہ ہو کر فرما دیتے ہیں "ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے" اس پر بچی انہیں یاد دلاتے ہوئے پوچھتی ہے "ڈیڈ ! ہم لبرل ہیں نا ؟" ڈیڈ سوچے سمجھے بغیر یکدم فرماتے ہیں "بالکل ! بیٹا بالکل ! ہم لبرل ہیں، ایک مْلا اس گھر کا داماد نہیں ہو سکتا !" بچی مسکرا کر کہتی ہے "لبرل کا مطلب یہ ہے کہ آپ مجھ پر اپنی مرضی نہیں ٹھونس سکتے۔ میں اپنے فیصلے خود کرنے کی مجاز ہوں !" اگر لبرل انکل پھر بھی اپنی ضد پر اڑے رہیں تو پھر وہ بچی خاندان کے لئے مغربی معاشروں کا ویپن آف ماس ڈسٹرکشن استعمال کرتے ہوئے پولیس کو رپورٹ کرنے کی دھمکی دیدیتی ہے۔ یوں میرا سوہنا قاری یورپ یا امریکہ میں بیٹھے کسی کھڑوس لبرل کا داماد بن جاتا ہے۔ میں اس غنے والے عشق کا زبردست سپورٹر ہوں کہ اس کی مدد سے تیزی سے ہم رائٹسٹ لڑکے والے اور لیفٹسٹ لڑکی والے بن کر مضبوط رشتوں میں بندھ رہے ہیں۔ "عشق اندھا ہوتا ہے" دیسی کیا بدیسی لٹریچر میں بھی پڑھ رکھا ہے کہ عشق کیا نہیں جاتا بلکہ یہ تو از خود ہوجاتا ہے۔ یہ وارڈن کو قیدی سے، میکش کو ساقی سے حتی کہ بہرے کو اندھے سے کہیں بھی کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر کے لٹریچر، فلموں اور ڈراموں میں عشق کی لاتعداد صورتیں دیکھیں مگر یہ یقین جانئے طبیعت کو یہ غنے والا عشق ہی بھایا ہے اور ایسا بھایا ہے اس کا تصور تنہائیوں میں غنے گنگنانے پر مجبور کر دیتا ہے !