مکرمی!اکثر حکمرانوں پہ قسمت اور کرپشن کی دیوی نہ چاہتے ہوئے بھی مہربان رہی قسمت کے تارے خوب چمکے مگر بعد ازاں وہی تارے دن کو بھی نظر آئے۔قائد ملت تو بس جرمِ ضعیفی کا شکار ہوئے۔ وقت کے ہیرو ایوب بھی متعدد عیوب نظر آنے پہ بے آبرو ہو کرکوچے سے نکالے گئے۔ بھٹو نے قوم کو اک جرنیل سے نجات دلائی مگر یہی فریضہ دوسرے جرنیل نے انہیں چلتا کر کے ادا کیا۔ 1977ء میں تخت ایک ،قبر بھی ایک مگر امید وار دو تھے لہٰذا صاحب ِتخت کو اپنے حصے کا تختہ مل گیا۔مزید ایک دہائی میاں اور بی بی کے اقتدار اور رسوائی کی آنکھ مچولی چلتی رہی۔99 ء میں اک خلائی کشمکش کے نتیجے میں میاں صاحب جیل اور پھر جدہ جلاوطن ہوئے اور جنرل صاحب نو برس تک مشرف بہ اقتدار رہے۔حسب معمول رسوائی و جگ ہنسائی مقدر بنی اور اب اشتہاریت کے تخت تلے روپوش ہیں۔ بینظیر بھٹو کی جان بھی سیاست کی نذر ہوئی۔زرداری جی بھی حسب ِ استطاعت جیل کاٹ چکے ۔پی پی دور میں کئی وزراء اعظم مذاق بنے اور عزت سادات پہ حرف آیا تاہم اس بارگیلانی صاحب کسی بڑی رسوائی کے بغیر جیل یا تختے کی بجائے اپنے گھر سدھارے۔سیاست کا ایک معنی سزا بھی ہے جو ہر سیاسی فرد کا مقدر ہے۔2013 دھندلاہٹ زدہ الیکشن پھر میاں صاحب کو تخت پہ لایا ،کرپشن کے الزام میں ایک بار پھر خلا سے خلا میں گرفتاری کے عمل سے میاں صاحب محرم سے مجرم بن کر پابندِ سلاسل ہوئے۔ (امجدمحمود چشتی، میاں چنوں)