مکرمی! میں آپ کے موقر جریدے کے توسط یہ بات اعلی حکام تک پہنچانا چاہتی ہوں کہ برصغیر میں انگریزوں نے اپنی فرماں روائی کو مستحکم کرنے کے لیے جو نظامِ تعلیم قائم کیا تھا وہ خالصتاً ان کی اپنی ہی تہذیب کا آئینہ تو تھا۔ اس نظامِ تعلیم کا اہم جزو "مخلوط تعلیم" تھا۔عام مسلمان بھی یہ جانتا تھا کہ اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کا منشا بہرحال یہ نہیں تھی کہ نوجوان طلبہ و طالبات بے پردگی اور آزادانہ تعلقات کے سائے تلے پروان چڑھیں۔ آزادی کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ انگریزوں کے قائم کردہ مخلوط تعلیمی نظام کو ختم جائے گا۔مگر افسوس!اللہ کے نام پر قائم ہونے والے نومودہ ملک میں قوم کی کثیر تعداد یورپی تہذیب سے بے انتہا متاثر تھی،حد تو یہ ہوئی کہ پاکستان کو یورپی تہذیب میں ڈھالنے کی پوری کوشش کی گئی۔مخلوط نظام ان میں سرفہرست ہے۔مخلوط نظامِ تعلیم کے خلاف بولنے والے کو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم کے ہی خلاف ہیں۔مگر لڑکیوں کو تعلیم کے لیے ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ آزادی سے سیکھ سکیں۔ مخلوط تعلیم گاہوں کو درپیش مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ استاد کے تدریس مشکل ہو جاتی ہے۔ ہم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ طلباء و طالبات کے لیے الگ الگ تعلیم گاہیں قائم کی جائیں۔ نیز ،مخلوط نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ تاکہ پاکستان مسائل میں جکڑے جانے کی بجائے ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرے۔(عمارہ ایاز،کوٹلی ستیاں ،مری)