مکرمی ! اکیس اکتوبر کو نواز شریف کی آمد کا اعلان ہو چکا ہے اس کے لئے لندن اور دبئی سمیت درجنوں میٹنگ ہو چکی ہے لیگل ٹیم سے مشاروت کا سلسلہ بھی جاری ہے ان کی آمد پر استقبال کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں قائدین کو ان کی زمہ داریاں سونپ دی گئیں ہیں امیدواران کو پانچ سو بندہ لانے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے بندے لے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتطام اور کھانے پینے کا انتظام ہو رہا ہے مقامی و قومی سطح پر ان کے استقبال کے لئے مشاورتی اجلاس ہو رہے ہیں لندن رابطوں میں تیزی آنا شروع ہو چکی ہے مریم نواز ورکرز کنویشن اور جلسے جلوسوں کے زریعے عوام ردعمل کو جانچنے کی کوشش کرتے ہوئے قائد محترم کو گرین سگنل فراہم کریں گی یو ں تمام تر انتظامات کئے جا رہے ان سب میں عوامی مسائل کو حل کا کوئی پلان یا ایجنڈا شامل نہیں ہے ن لیگ کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے جس سے ملکی کی موجودہ صورتحال کو کنٹرول کرتے ہوئے عوام کو کوئی ریلیف فراہم کیا جا سکے کسی بھی مشاورتی اجلاس میں میں عوامی مسائل زیر غور نہیں لائے گئے نہ عوامی ایشو پر کوئی بات چیت کی گئی ہے زرائع کے مطابق مسلم لیگ ن اسٹبلمنٹ مخالف بیانیہ بنا کر آ ئندہ الیکشن میں حصہ لے گی لیکن سوچنے کی بات ہے اب تک تمام سیاسی جماعتیں پی ٹی آ ئی مخالف بیانیہ پر عمل پیرا ہیں اگر آنے والے وقت میں پی ٹی آئی اور اسٹبلمنٹ کے درمیان صلح ہو جاتی ہے تو ن لیگ سمیت سیاسی جماعتوں کا مستقل کیا ہو گا ؟ ( اختر عباس اختر، سدھار فیصل آباد)