ایک خوش اخلاق اور شیریں زبا ن شخص شہد فروخت کیا کرتا تھا۔ اور اس دوہری شیرینی کے باعث لوگ اس کے گرد اس طرح جمع ہوتے جیسے شہد پر مکھیاں، اور یوں اس کا سارا شہد دیکھتے ہی دیکھتے بِک جاتا تھا۔اس سے حسد رکھنے والے اس کی خوشحالی اور مقبولیت کے سبب انگاروں پر لوٹتے تھے اور ہمہ وقت اس کی مقبولیت کو کم کرنے کی فکر میں سرگرداں رہتے۔ بالآخر وہ اپنی اس ناپاک کوشش میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے ایسی سازش کی کہ شہد فروش کی خوش اخلاقی، بے رْخی میں بدل گئی۔ اب جو گاہک بھی اس سے بات کرتا وہ اس کے ساتھ لڑتا اور بَک بَک، جھک جھک کرتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے سارے گاہک ٹوٹ گئے،اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب وہ بازار میں آتا تو اس کے پاس صرف مکھیوں کا مجمع ہوتا، گاہک کوئی بھی پاس نہ پھٹکتا مال فروخت نہ ہونے کے سبب نوبت فاقوں تک آپہنچی تو ایک دن وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا معلوم نہیں خدا ہم سے کیوں ناراض ہوگیا ہے۔ سارا دن بازار میں بیٹھا رہتا ہوں لیکن ایک تولہ شہد بھی فروخت نہیں ہوتا۔ بیوی نے جواب دیا خداتو پہلے کی طرح مہربان ہے، فرق تمھارے اخلاق اور رویے میں آگیا ہے۔ پہلے تم اپنی شیریں گفتاری اور حسنِ اخلاق سے لوگوں کے دل موہ لیتے تھے۔ ہر شخص تم سے بات کر کے خوش ہوتا تھا، اور دوسرے شہد فروشوں کو چھوڑ کر تم سے شہد خریدتا تھا۔ اب تمھاری تلخ کلامی نے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کردی ہے اور انہیں تمہارا شہد بھی زہر معلوم ہوتا ہے۔