معزز قارئین!۔ 20 اکتوبر کو انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن "P.E.M.R.A" کے چیئرمین پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد اور میرے مرحوم دوست ، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کی 84 ویں سالگرہ منائی گئی ۔ مَیں تصّوراتی انسان ہُوں۔ اُس روز مجھے میرے ایک اور مرحوم امرتسری دوست ،تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن، نامور قانون دان / سیاستدان ملک حامد سرفراز بھی یاد آئے اور بھارتی پنجاب کا شہر امرتسر ؔبھی۔ تحریکِ پاکستان کے دَوران ،امرتسر ؔاور سِکھ ریاستوں نابھہؔ اور پٹیالہ ؔمیں میرے خاندان کے 26 افراد ( زیادہ تر ) سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوئے تھے ۔

مَیں نے امرتسر ؔتین بار دیکھا ۔ 1945ء اور 1947ء میں اپنے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان‘‘ کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان اور والدہ صاحبہ کے ساتھ ( رشتہ داروں کی شادیوں پر ) تیسری بار دسمبر 2004ء میں پٹیالہ ؔیونیورسٹی میں ’’عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ کے موقع پر ،جب مَیں پاک پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ گیا۔ امرتسر ؔ۔ سِکھوں کا مقدّس شہر ہے اور وہاںکا ’’ ہرمندر‘‘ ( Golden Temple) بہت ہی مقدّس ۔ مَیں نے دسمبر 2004ء میں امرتسر ؔکے ہر مندر ؔ پر حاضری بھی دِی تھی ۔ 

سِکھوں کے پانچویں گُرو، گُرو ارجن دیو جی کی درخواست پر ، قادریہ سِلسلہ کی ولّی حضرت میاں میر صاحب لہوریؒ نے 1589ء میں ہر مندرؔ کا سنگ ِ بنیاد رکھا تھا ۔ مغل بادشاہ نور اُلدّین جہانگیر کے ہندو وزیر ، دیوان چندو ؔلال کی سازش سے گُرو ارجن دیو جی کا قتل ہُوا ، جِس سے سِکھوں اور مسلمانوں کے تعلقات کشیدہ ہوتے گئے۔ پھر نویں گُرو ، گُرو تیغ بہادر جی کو اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں قتل کِیا گیا، جِس کے بدلے میں ،سِکھوں کے 10 ویں گُرو ، گُرو گوبند جی اور اُن کے نائب بندہ ؔسنگھ بہادر کی قیادت میں ،سِکھوں نے ، نہ صِرف پنجاب بلکہ ہندوستان کے کئی صوبوں میں مسلمانوں کا قتل عام کِیا۔ 

قائداعظم نے سِکھوں کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دِی تھی لیکن، وہ نہیں مانے بلکہ اُنہوں نے تحریک پاکستان کے دَوران مشرقی پنجاب میں 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا ،55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغوا کر کے اُن کی آبرو ریزی کی۔ 1984ء میں آنجہانی بھارتی وزیراعظم ، اندرا گاندھی کے دَور میں ’’گولڈن ٹیمپل ‘‘ پر ٹینکوں سے چڑھائی کی گئی ، پھر بھارت میں ہزاروں سِکھوں کو قتل کِیا گیا تو، سِکھوں نے ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کی آڑ میں پاک پنجاب پر میلی نظریں ڈالنا شروع کردِیں اور پراپیگنڈا کِیا کہ ’’ پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب میں لِکھی اور بولی جانے والی پنجابی زبان ایک ہے ‘‘۔ پاکستان کے کئی شاعر ، ادیب اور دانشور بھی ،سِکھوں کے جال میں پھنسے ہُوئے ہیں لیکن، میرا یہ دعویٰ ہے کہ …

اِکّ مِکّ نئیں کرسکدا کوئی ، گولا ، نہ کوئی گولی!

وَکھری پاک پنجاب دِی بولی، وَکھری سِکھی بولی!

معزز قارئین!۔ پٹیالہ میں ، 2 دسمبر 2004ء کو معروف آنجہانی صحافی / سیاستدان ، کلدیپ نائر کی صدارت میں منعقدہ ’’ عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ میں سِکھ ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں نے ’’ سانجھا پنجاب‘‘ کی بات کی تو، مَیں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ پاک پنجاب کے لوگ ، سِکھوں اور بھارت سے ، پُر امن تعلقات کے حق میں ہیں لیکن،پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب کی لکیر کو مٹانے کے حق میں نہیں ہیں‘‘۔ پھر مَیں نے اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ ’’ مَیں تے ایس لکیر نُوں ، کدے وِی نئیں مِٹن دیاں گا!‘‘۔ سِکھ مقررین کو بڑا صدمہ ہُوا لیکن، وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے کیوں کہ مَیں تو سرکاری مہمان تھا ؟۔ مَیں نے پاک پنجاب میں بولی اور لکھی جانے والی پنجابی کو ’’ لوک مُکھی‘‘ کا نام دِیا۔ 

مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا انتقال 6 مئی 2002ء کو ہُوا اور ملک حامد سرفراز کا پانچ جولائی 2011ء کو ۔ میرے دونوںمرحوم دوست جب تک زندہ رہے ’’ سانجھا پنجاب‘‘کی تحریک کی مخالفت کرتے رہے۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ ، فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں متحدہ اپوزیشن کی امید وار تھیں ۔ مادرِ ملّت ؒ کی انتخابی مہم کے دَوران تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد ، مجھے اور میرے ایک مرحوم صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت ؔ کو ، کونسل مسلم لیگ کے مندوبین کی حیثیت سے سرگودھا سے لاہور لے گئے، جہاں اُنہوں نے کونسل مسلم لیگ کے لیڈر میاں منظر بشیر کے گھر ہماری مادرِ ملّت سے ملاقات کرائی۔ 

اُسی وقت لاہور اور پاکپتن شریف میں تحریکِ پاکستان کے دو کارکنوں مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسریؔ اور پاکپتن کے میاں محمد اکرم نے بھی مادرِ ملّت سے ملاقات کی ۔ میاں محمد اکرم (اردو اور پنجابی کے شاعر اور صحافی ) برادرِ عزیز سعید آسیؔ کے والد صاحب تھے ۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ کا آدھے سے زیادہ خاندان ، امرتسر میں سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہُوا۔ 30نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی اور عوام کو ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ دِیا تو، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسریؔ عام مجلسوں میں کہا کرتے تھے کہ ’’ پنجابی کے صوفی شاعر بابا بُلّھے شاہ (1680ئ۔ 1757ئ) نے تو ، 200 سال پہلے ہی ’’ بھوکے ، ننگے اور بے گھر لوگوں ‘‘ کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی …

مَنگ اوئے بندیا، اللہ کولُوں گُلّی ، جُلّی ، کُلّی !

یعنی۔’’ اے بندے ! ۔ تُو اللہ سے روٹی، کپڑا اور مکان مانگ‘‘۔ بیگ صاحب اپنے حلقۂ احباب میں ۔ ’’ باب اُلعِلم‘‘ ۔ حضرت علی ؑ کا یہ قول بھی عام کِیا کرتے تھے کہ۔ ’’ ہر اِنسان کے لئے ، روزانہ ایک وقت کا کھانا ، سادہ کپڑے اور سر چھپانے کے لئے ایک چھوٹا سا گھروندا کافی ہوتا ہے! ‘‘۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ نے لاہور میں مہاجرین کی آبادکاری میں اہم کردار ادا کِیا۔ وہ بہت مہمان نواز تھے اور دوستوں کو مہمان بنا کر لاہور میں مغل بادشاہوں کی تعمیر کردہ عمارتوں / باغوں میں پکنک منانے لے جاتے تھے ۔ ایک دِن مَیں اور کئی دوسرے دوست شالا مار ؔباغ کی پکنک میں ۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ کے مہمان تھے کہ۔’’ عوامی جمہوریہ چین کے سیّاحوں کا ایک گروپ وہاں آگیا‘‘۔ اُن میں سے 2 چینی سیّاح جب ہمارے ساتھ فَر فَر اُردو بولنے لگے تو ،مرزا شجاع اُلدّین بیگ نے اُن سے کہا کہ ۔ ’’ پاکستانی قوم اپنے لیڈر قائداعظمؒ سے بہت محبت کرتی ہے اور آپ کے لیڈر چیئرمین مائوزے تنگ کی بھی جنہوں ، نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی کُھل کر حمایت کی تھی!‘‘۔ چینی سیاحوں نے بیگ صاحب اور ہم سب کو ’’Salute‘‘ کِیا ۔ 

ملک حامد سرفراز 

نامور قانون دان اور سیاستدان ، ملک حامد سرفراز 31 جولائی 1930ء کو امرتسر میں پیدا ہُوئے اور 5 جولائی 2011ء کو ، لاہور میں انتقال کر گئے ۔ میری اُن سے پہلی ملاقات ستمبر میں پاک بھارت جنگ کے بعد شیخ محمد رشید (بابائے سوشلزم) کے دفتر میں ہُوئی ۔ اُس سے پہلے ملک صاحب سابق وزیراعظم پاکستان سیّد حسین سہروردی کے معاون ایڈووکیٹ رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رُکن تھے لیکن، بھٹو صاحب نے اُن کی قدر نہیں کی۔ ملک حامد سرفراز ائیر مارشل (ر) محمد اصغر خان کی ’’پاکستان تحریک استقلال‘‘ کے اکابرین میں شامل تھے ۔ 

1977ء کے عام انتخابات سے پہلے مَیں نے اپنے روزنامہ ’’سیاست‘‘ لاہور کو ’’پاکستان قومی اتحاد ‘‘کی حمایت کے لئے وقف کردِیا تھا۔ ملک حامد سرفراز (مرحوم) اور پاکستان تحریکِ استقلال میں شامل ( ماشاء اللہ بقیدِ حیات) میرے دو لہوری ؔدوست ،سیّد یوسف جعفری اور سیّد حسن تاج ، المعروف نواب صاؔحب ، مجھے ائیر مارشل (ر)صاحب کے قریب لے گئے اور ایک دِن اُنہیں میرے دفتر میںبھی لائے تھے ۔ معزز قارئین! ۔ علاّمہ اقبالؒ نے مرنے والوں کو یاد کرنے کے لئے کیا خوب کہا ہے کہ …

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں!

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں!

…O…

مرنے والوں کی جبیں رَوشن ہے اِس ظُلمات میں !

جِس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں !