مکرمی! پاکستان میں ہر سال اکتوبر کا مہینہ بریسٹ کینسر سے آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو میری نظر میں کئی ایسے قریبی رشتہ دار اور دوست احباب گھومنے لگتے ہیں جو بریسٹ کینسر کا شکار ہوئے اور آج ہم میں موجود نہیں۔ تب معاشرے میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے زیادہ آگاہی موجود نہیں تھی۔ گو کہ علم ہونے پر علاج کیلئے بہت بھاگ دوڑ ہوئی۔ کوئی ہسپتال، پیر، فقیر نہیں چھوڑا گیا۔ مالی وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر علاج کی ہر کوشش کی گئی۔ مگر بہت تاخیر ہو چکی تھی۔ بریسٹ کینسر سے آگاہی کا مہینہ میرے اندر مذکورہ تمام متاثرین اور لواحقین کے دْکھ تازہ کر دیتا ہے۔مختلف بیماریوں سے نہ صرف آگاہی رکھنا، بلکہ ان کے علاج کی کوشش ہر فرد کا حق ہے۔ اس کا خود کو اس حق سے محروم رکھنا اپنے ساتھ ایک ایسی زیادتی ہے جس کا نتیجہ برسوں بھگتنا پڑتا ہے۔ خواتین میں چھاتی کے بڑھتے سرطان کی ایک بڑی وجہ جھجک ہے۔ "لوگ کیا کہیں گے" یا، معمولی مسئلہ سمجھ کر پہلے ایسی بیماری کو نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر دیسی ٹوٹکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جب بات بگڑ جاتی ہے تو علاج کیلئے یہاں وہاں بھاگا جاتا ہے، مگر تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ حالانکہ ماہرین کا موقف ہے کہ بریسٹ کینسر ایسی بیماری ہے جس کو ابتدائی طور پر ہی پکڑا جا ئے تو بچنے کے چانسز 95 فیصد سے زائد ہوتے ہیں۔ تاہم دنیا کے بدلتے مزاج اور ترجیحات کے ساتھ ساتھ اب صورتحال مختلف ہوچکی ہے۔ جس معاشرے میں پہلے مذکورہ حوالے سے بات کرنے میں جھجک آڑے رہتی تھی، وہاں اب "پنک ربن" نامی ایک پلیٹ فارم کی وجہ سے خواتین میں بریسٹ کینسر سے بچاؤ سے آگاہی اور مختلف ہدایات دینے کے ضمن میں منظم آگاہی مہم بھرپور انداز میں چلائی جاتی ہے اور علاج میں کوتاہی نہ برتنے بارے انہیں خبردار کیا جاتا ہے۔ (محمد نورالہدیٰ)