نئی دہلی،اسلام آباد ( 92نیوزرپورٹ،نیوز ایجنسیاں ) بھارت میں انصاف کاقتل، بھارتی عدلیہ نے ایک اور متنازعہ فیصلہ دے دیا ، بابری مسجد کی شہادت کا28سال بعدفیصلہ سنا دیا گیا ،خصوصی عدالت کے جج جسٹس سریندر کمار یادو نے بی جے پی رہنماایل کے ایڈوانی سمیت ملوث تمام 32 ملزمان بری کر دیا ، خصوصی عدالت نے ویڈیو لنک کے ذریعے فیصلے میں کہا کہ بابری مسجد کو منصوبہ بندی کے تحت شہید نہیں کیا گیا، بابری مسجدگرانے کیلئے منصوبہ بندی کے ثبوت نہیں ملے ،تمام ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کیا جاتا ہے ،بی جے پی رہنماایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اومابھارتی، ونئے کٹیار،کلیان سنگھ ملزمان میں شامل تھے جنہیں بری کر دیا گیا،احاطہ عدالت کے باہر موجود جنونی ہندوئوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور جئے شری رام کے نعرے لگائے ۔ ملزم جے بھگوان گویل نے ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مسجد توڑی تھی، اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی سے سزا کو قبول کر لیتے ، یہ ہندو مذہب ، ہندو قوم کی فتح ہے ۔دوسری جانب بابری مسجد اراضی مقدمے میں ایک فریق ہاشم انصاری کے بیٹے اقبال انصاری نے کہا ہم قانون کی پاسداری کرنے والے مسلمان ہیں، اچھا ہے اگر عدالت نے بری کر دیا ہے تو ٹھیک ہے ۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے ایک ٹویٹ میں فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور لکھا ’دیر سے ہی سہی انصاف کی جیت ہوئی۔ صدرآل انڈیامجلس اتحادالمسلمین اسدالدین اویسی نے آج بھاری تاریخ کاسیاہ ترین دن ہے ، آج افسوس ناک دن ہے ، عدالت کہتی ہے کہ کوئی سازش نہیں ہوئی تھی، سپریم کورٹ آف انڈیا بابری مسجد پراپرٹی کیس میں اسے منصوبہ بندی سے تباہ کرنے کا کہہ چکی ہے ۔پاکستان نے بابری مسجد فیصلے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے شرمناک قرار دے دیا ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان بابری مسجد شہید کرنے والے مجرموں کی رہائی کی مذمت کرتا ہے ، جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تین دہائیوں بعد اس مجرمانہ اقدام کا فیصلہ کیا گیا۔ فیصلہ دنیا کو بتاتا ہے کہ ہندوتوا سے متاثر بھارتی عدلیہ انصاف کرنے میں ناکام ہو گئی، نام نہاد جمہوریت میں اگر انصاف ہوتا تو سرعام جرم کرنے والے آزاد نہ ہوتے ، اس سے قبل بھی بھارتی سپریم کورٹ نے جانبدارانہ فیصلہ سنایا تھا۔ بھارتی حکومت اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔