مکرمی! تعلیم ہمیں معاشرتی حیوان کے درجے سے اٹھا کر اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کرتی ہے۔تاہم تعلیم کی جو تعریف سب سے معتبر مانی جاتی ہے ،وہ ہے کہ تعلیم رویوں کے اندر مثبت تبدیلی کا نام ہے ۔ہم سب کے لیے یہ معمول کا مشاہدہ ہے کہ جب کوئی پڑھا لکھا آدمی بدتمیزی یا اخلاق سے گری ہوئی حرکت یا بات کرے ،تو ہم سب اسے یہ کہتے ہیں کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ،آپ تو پڑھے لکھے ہو۔قانون کی تعلیم حاصل کر کے قانون شکنی کرنا اور قانون کا تماشا بنانا ہمارے وکلاء حضرات کا من پسند کھیل ہے۔اب بات کرتے ہیں معزز ڈاکٹر صاحبان کی ۔آئے روز کی ہڑتال ،مریضوں کے ساتھ بے رحمانہ برتاو ،اپنے مفادات کے لیے انسانی جانوں کی پرواہ نہ کرنا ،اپنے کمیشن کے لیے بلا ضرورت اور مہنگی ادویات تجویز کرنا بھی ثابت شدہ ہے۔کیا ہمارے ڈاکٹرز اور وکلاء کا کوئی ایک رویہ بھی تعلیم کی کسی بھی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ عام پاکستانی کی اعلی افسران کے دفاتر میں ذرا بھی شنوائی نہیں۔رشوت،سفارش اور سیاسی مداخلت ہی سکہ رائج الوقت ہے۔کیا صرف اپنے اور طاقتور طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے والے اور عام پاکستانی کو بے وقعت کرنے والے ان افسران کو تعلیم یافتہ کہا جا سکتا ہے۔سیاست ،صحافت ، امامت ،عدالت حتی کہ درس و تدریس سمیت ہر جگہ قحط الرجال ہے۔ہر جگہ ذاتی مفادات اور خواہشات کے ماروں کا راج ہے۔جس علم کے حاصل کرنے کا ہمیں حکم تھا ،وہ علم کہیں نظر نہیں آتا ۔یہ پتہ نہیں کون سا علم ہے کہ معاشرہ نام نہاد تعلیم یافتہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود دینی اور دنیاوی خوبیوں سے تہی دامن ہوتا جا رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شعبہ میں پیشہ ورانہ دیانت اور اخلاقیات کو فروغ دیا جائے۔ (فیصل رشید لہڑی،گجرات)