مکرمی!موجودہ ’’کرونائی‘‘ حالات اور میڈیا انڈسٹری کو درپیش چیلنج کے باوجود ہمارے صحافی بھائیوں کو اپنے سے زیادہ خیال نچلے طبقے کا ہے ۔ حالانکہ میڈیا ورکرز خود کرائسز کا شکار ہیں ۔ کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملتی ۔ بیشتر اداروں میں انہیں جبری نکالا جا رہا ہے ۔ کتنے ہی صحافی ادارے بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہوئے۔ اس کے باوجود راشن پہنچانے کی لسٹ میں ان کی بجائے نچلے طبقے کو ترجیح دی گئی ۔ ایک ایسا چینل بھی ہے جسکے ایک سینئر جو کہ خود بھی بیروزگار ہوئے، سے میری بات ہوئی، انہوں نے لسٹ میں اپنے ساتھ فارغ ہونے والے صحافیوں کا نام پیش کرنے سے زیادہ فوقیت ادارہ کی بندش سے بیروزگار ہونے والے ’’ہیلپر‘‘ طبقے کو دی ۔میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ہم یونہی اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال کرنے لگ جائیں، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دیگر کیلئے آسانیاں بانٹنے والے بن جائیں … اپنے علاقوں، محلوں، دفاتر میں اپنے سے کمزور طبقات کو اہمیت دیں اور پسے ہوئے طبقے کو ساتھ لے کر چلیں … تو معاشرہ جتنا خوبصورت ہو جائے گا، اس کا تصور ہی مسحور کن ہے ۔ یقیناً قومیں انہی رویوں سے مضبوط ہوتی ہیں ۔ (محمد نورالہدیٰ)